سمندر میں ڈوبنا بہتر ہے یا گولی سے مرنا؟
27 اپریل 2015ایک بیٹے اوردو بیٹیوں کے والد معظم شفیع نے جرمنی کے شہر میونخ میں سیاسی پناہ کی درخواست رکھی ہے۔ انتالیس سالہ معظم کے دس بہن بھائی ہیں اور ان کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب کی تحصیل نوشہرہ ورکاں سے ہے۔ وہ ہوائی جہاز کے ذریعے دبئی اور پھر وہاں سے لیبیا پہنچے۔ لیبیا سے اٹلی پہنچنے کے لیے انہوں نے سمندری راستے کا انتخاب کیا، جہاں ان کی زندگی اور موت کے درمیان صرف چند قدموں ہی کا فاصلہ تھا۔ آخر معظم شفیع نے اتنا بڑا خطرہ کیوں مول لیا، اس بارے میں ان کا خصوصی انٹرویو:
ڈی ڈبلیو: اپنا گھر اور بیوی بچے تو کوئی بھی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ آپ نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
معظم شفیع: کوئی ایک وجہ ہوتی تو شاید میں پاکستان ہی میں رہتا۔ جائیداد کے معاملے پر ہماری دیرینہ دشمنی چل رہی ہے۔ کئی مہینے پہلے میرے بہنوئی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ میں بھی اپنے بہنوئی کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ مخالفین مجھے بھی قتل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مجھ پر بھی ایک مرتبہ حملہ کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے مخالفین کا تعلق موجودہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان سے ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں پولیس بھی اُسی کی ہوتی ہے، جو اقتدار میں ہوتا ہے۔ تو پولیس بذات خود میرے لیے خطرہ تھی۔ کسی بھی جھوٹے مقدمے میں آپ کو جیل بھیجا جا سکتا ہے اور مہینوں تک آپ کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ میرے لیے روپوش ہو جانے یا پھر پاکستان چھوڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔
ڈی ڈبلیو: آپ نے پاکستان چھوڑنے کے لیے کس سے رابطہ کیا؟
معظم شفیع: پاکستان میں ہر شہر اور گاؤں میں ایجنٹ موجود ہیں، جو آپ کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے خطیر رقم وصول کرتے ہیں۔ میرے ایک جاننے والے نےکہا کہ وہ مجھے دبئی، سعودی عرب یا لیبیا بھیج سکتا ہے لیکن سب سے جلد ویزا لیبیا کا ملتا ہے۔ میں نے فوراﹰ لیبیا جانے کے لیے ہاں کہہ دی۔ مجھے نہیں پتہ کہ اُس کے انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے کن لوگوں کے ساتھ رابطے تھے۔ لیکن میں نے اُسے تقریباﹰ تین ہزار یورو (تین لاکھ روپے) کی رقم دی اور ایک ہفتے کے اندر اندر اس نے بزنس ویزا لگوا کر میرا پاسپورٹ مجھے واپس کر دیا۔ پہلے میں دبئی پہنچا اور دبئی سے لیبیا، جہاں ہمارے علاقے کے پہلے ہی درجنوں لڑکے موجود تھے۔
ڈی ڈبلیو: آپ نے لیبیا چھوڑ کر اٹلی جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
معظم شفیع: لیبیا پہنچ کر میں سب سے پہلے اپنے علاقے کے جاننے والوں کے پاس گیا، جن سے میں پہلے ہی موبائل فون پر بات کر چکا تھا۔ وہاں کے حالات میری توقع سے بھی زیادہ خراب تھے۔ میرے وہاں پہنچنے کے کچھ روز بعد ہی لیبیا کے چند مسلح لڑکے ہمارے فلیٹ میں گھس آئے۔ انہوں نے ہم سب سے جتنے بھی پیسے تھے، چھین لیے۔ ہمارے پاسپورٹ، موبائل فون، سبھی قیمتی سامان وہ ساتھ لے گئے۔ یہاں بیٹھ کر لیبیا کے حالات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ وہاں کے بچے بھی آپ کو جس وقت چاہتے تھے، مارنا شروع کر دیتے تھے اور آپ یہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتے۔ لیبیا کے لوگ پاکستانی مزدورں سے کام کرواتے تھے لیکن مزدوری مانگنے پر ان کو مارتے تھے۔ وہاں کے مسلح گروپ ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے ، جس کو چاہتے تھے قتل کر دیتے تھے۔ قیمتی سامان کی چوری کے بعد میرے ذہن میں سب سے پہلا خیال یہی آیا تھا کہ میں موت سے ڈر کر لیبیا آیا تھا اور ادھر بھی موت ہی کا سامنا ہے۔
ڈی ڈبلیو: تو آپ لیبیا سے اٹلی کیسے پہنچے؟
معظم شفیع: لیبیا ہی میں موجود ایک پاکستانی لڑکے نے کہا تھا کہ وہ شامی پناہ گزینوں کے ہمراہ ہمیں بھی اٹلی بجھوا سکتا ہے۔ میرے ساتھ چند دوسرے پاکستانی لڑکے بھی تھے۔ اس نے مجھ سے تقریباﹰ ایک ہزار یورو (ایک لاکھ روپے) مانگے۔ پاکستان میں میرے گھر والوں نے اس کے پاکستان میں موجود بھائی کو پیسے دیے اور وہ ہمیں لیبیا کے (ساحلی شہر) زوارہ اُن ایجنٹوں کے پاس چھوڑ گیا، جو لوگوں کو اٹلی پہنچاتے تھے۔
ڈی ڈبلیو: کشتی پر آپ کتنے لوگ سوار تھے اور ان کا تعلق کن ملکوں سے تھا؟
معظم شفیع: کشتی پر سوار زیادہ تر افراد کا تعلق شام سے تھا، ان میں بچے بھی تھے، بوڑھے بھی اور خواتین بھی۔ ان کی مجموعی تعداد تقریباﹰ اسّی کے قریب ہوگی۔ بیس کے قریب مردوں کا تعلق افریقی ملکوں سے تھا جبکہ ہم چوالیس لڑکوں کا تعلق، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہمارا سفر رات تین بجے کے قریب شروع ہوگا۔ لکڑی کی کشتی تھی، جو راستے میں دو مرتبہ خراب ہوئی اور ہمیں یوں لگتا تھا کہ چند ہی منٹوں بعد ہم سمندر میں ڈوب جائیں گے۔
ڈی ڈبلیو: جب کشتی خراب ہوئی تو آپ لوگوں کی مدد کس نے کی؟
معظم شفیع: کشتی دو مرتبہ خراب ہوئی اور دونوں مرتبہ ہم نے ہوا میں سفید کپڑے لہراتے ہوئے راستے میں آتے جاتے بحری جہازوں سے مدد طلب کی۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ دونوں مرتبہ ہمیں مدد مل گئی ورنہ ہم سب نے وہیں ڈوب کر مر جانا تھا۔ بچے اور خواتین کشتی کے اوپر والے حصے میں تھے جبکہ زیادہ تر مرد کشتی کے نچلے حصے میں تھے۔ جونہی بڑی بڑی لہریں آتیں، نچلے حصے میں پانی بھرنا شروع ہو جاتا تھا۔ کشتی کا انجن بھی اُسی جگہ رکھا ہوا تھا۔ دھوئیں اور گرمی کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہو جاتا تھا۔ جگہ تنگ تھی، لوگ زیادہ تھے۔ جب آپ کو سولہ گھنٹے اسی طرح گزارنا پڑیں تو آپ کو زندہ بچ جانے کی امید ہی زندہ رکھ سکتی ہے اور کبھی کبھار وہ بھی ختم ہو جاتی تھی۔ دوسری مرتبہ کشتی خراب ہوئی تو انجن میں تیل ہی ختم ہو چکا تھا۔ بڑی بڑی لہریں آتی تھیں اور آپ کی کشتی ہچکولے کھاتی ہوا کی سمت میں جانا شروع ہو جاتی تھی۔ میں نے موت کو اتنے قریب سے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ لہریں بہت بڑی تھیں اور یوں لگتا تھا کہ ابھی کشتی ڈوب جائے گی۔ بچے بھی رو رہے تھے، خواتین بھی اور بوڑھوں کے بھی آنسو نکل رہے تھے۔ شاید سبھی یہی سمجھ رہے تھے کہ ہم ڈوب جائیں گے۔
ڈی ڈبلیو: زندگی اور موت کی اس کشمکش میں آپ کی سوچیں کیا تھیں؟
معظم شفیع: تب میں نے پہلی مرتبہ سوچا تھا کہ کہاں مرنا بہتر ہوتا؟ پاکستان میں یا وہاں سمندر میں؟ میں سوچ رہا تھا کہ شاید آج کے بعد میں اپنے بچوں کو نہیں دیکھ پاؤں گا اور وہ ہمیشہ میری تصویر ہی دیکھا کریں گے۔ ابھی بہت چھوٹے ہیں سب۔ میں نے پہلی مرتبہ سوچا کہ اگر مرنا ہی تھا تو میں اپنے بیوی بچوں اور والدین کے پاس مرتا۔ کم از کم وہ میری لاش تو دیکھ سکتے تھے، یہاں تو میری لاش بھی مچھلیاں کھا جائیں گی۔
ڈی ڈبلیو: تو پھر آپ اٹلی اور اس کے بعد جرمنی کیسے پہنچے؟
معظم شفیع: تقریباﹰ سولہ گھنٹے کے سفر کے بعد اٹلی کی بحریہ کے ایک جہاز نے ہمیں بچایا۔ ہم تین دن تک اس اطالوی بحری جہاز پر رہے۔ وہ ہمیں کھانے پینے کے لیے کچھ نہ کچھ دے دیتے تھے اور جب ہم اٹلی پہنچے تو اس وقت تک ہمارے چہروں کی جلد تک پھٹ چکی تھی اور یوں لگتا تھا کہ نمک ہماری آنتوں تک میں پہنچ چکا ہے۔ میں چند دن اٹلی میں ٹھہرا اور پھر بذریعہ ریل گاڑی جرمنی پہنچ گیا۔ مجھے پتہ چلا تھا کہ جرمنی میں تارکین وطن کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔
ڈی ڈبلیو: کیا جرمنی پہنچ کر آپ کے مسائل حل ہو گئے ہیں؟
معظم شفیع: اس میں کوئی شک نہیں کہ میری جان کو اب کوئی خطرہ نہیں لیکن انسان کو یہاں آ کر پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے اپنے مسائل ہیں۔ میں ایک مخصوص علاقے سے باہر نہیں جا سکتا۔ مجھے کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، میں کوئی اچھی رہائش کرائے پر نہیں لے سکتا۔ پاکستان میں میرے پاس رقم ہے لیکن میں یہاں سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔ میں جس جگہ رہتا ہوں، وہ شہر سے ستّرہ کلومیٹر دور ہے اور شہر کے لیے دن بھر میں صرف ایک مرتبہ بس چلتی ہے۔ مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ جرمنی میں مقامی باشندے ہم جیسوں کے مقابلے میں اپنے کتوں کی زیادہ قدر کرتے ہیں۔