سنکیانگ میں غیر معمولی مظاہروں کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی
26 نومبر 2022چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں مقامی حکام نے کووڈ لاک ڈاؤن کے خلاف غیر معمولی مظاہروں کے بعد صوبائی دارالحکومت ارمچی میں کچھ محلوں کو کھول دیا ہے۔ یہ مظاہرے چینی حکومت کی زیرو کووڈ پالیسی کے تحت گزشتہ تین ماہ سے زائد عرصے سے جاری سخت ترین لاک ڈاؤن کے خلاف جمعے رات دیر گئے کیے گئے تھے۔
مظاہرین لاک ڈاؤن کے دوران ایک رہائشی عمارت میں آتش زدگی کے واقعے میں ہلاکتوں کے بعد سخت ناراض تھے۔ آتش زدگی کے اس واقعے میں کم ازکم دس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جمعے کے روز مظاہرین وہاں موجود محافظوں پر چیختے چلاتے رہے۔
جمعے کی رات چینی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز کے مطابق سڑک پر چلتے ہجوم نے ’لاک ڈاؤن ختم کرو!‘ کے نعرے لگائے۔ نيوز ايجنسی روئٹرز نے تصدیق کی کہ یہ فوٹیج سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی سے شائع ہوئی تھی۔ ویڈیوز میں ایک پلازہ میں جمع لوگوں کو چین کے قومی ترانے کے بول ’اُٹھو، وہ لوگ جو غلام بننے سے انکار کرتے ہیں!‘ گاتے ہوئے جب کہ دوسروں کو چیخ چیخ کر لاک ڈاؤن سے رہائی کے نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا۔
لاک ڈاؤن میں نرمی
اس صورتحال کے بعد مقامی حکام نے ہفتے کو اعلان کیا کہ کم خطرے والے علاقوں کے رہائشیوں کو ان کے محلوں میں آزادانہ طور پر نقل و حرکت کی اجازت ہوگی۔ لیکن ابھی بھی بہت سے دوسرے محلے لاک ڈاؤن میں ہی ہیں۔ چینی عہدیداروں نے فاتحانہ طور پر یہ اعلان کیا کہ انہوں نے بنیادی طور پر زیرو کووڈ پالیسی کا سماجی ہدف حاصل کر لیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کمیونٹی میں کورونا مزید نہیں پھیل رہا اور نئے انفیکشن صرف ان لوگوں میں پائے جا رہے ہیں جو پہلے سے صحت کی نگرانی کے لیے قرنطینہ کی ایک مرکزی سہولت میں ہیں۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
سوشل میڈیا صارفین نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی اس خبر کا بے اعتنائی اور طنز کے ساتھ خیر مقدم کیا۔ ویبو پر ایک صارف نے لکھا، ’’صرف چین ہی اس رفتار کو حاصل کر سکتا ہے۔‘‘ چینی سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے والے موضوعات کو حکام عام طور پر سینسر کر دیتے ہیں اس کے باجود ’زیرو کووڈ‘ کا اعلان ویبو، ٹویٹر جیسے پلیٹ فارم اور ٹک ٹاک کے چینی ورژن ڈوئین، دونوں پر نمبر ون ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ تھا۔
رہائشی عمارت میں آگ اور مظاہرے نے عوام کا غصہ دو آتشہ کر دیا، کیونکہ لاکھوں سوشل میڈیا صارفین نے چین کے وبائی امراض کے کنٹرول پر سوال اٹھانے والی پوسٹیں شیئر کیں یا ملک کے سخت پروپیگنڈے اور سخت سنسرشپ کنٹرولز کا مزاق اڑایا۔
چین نے سنکیانگ کے وسیع علاقے میں ملک کا سب سے طویل لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے۔ ارمچی کے 40 لاکھ باشندوں میں سے بہت سے لوگوں کو 100 دنوں تک اپنے گھروں سے باہر نکلنےسے روک دیا گیا ہے۔ شہر میں پچھلے دو دنوں میں کورونا وائرس کے تقریباً 100 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔
سنکیانگ ميں تقريباً 10 ملین ایغور مسلمان بھی آباد ہيں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مغربی حکومتیں طویل عرصے سے بیجنگ پر اس مسلم نسلی اقلیت کے خلاف بدسلوکی کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ ان الزامات میں ایغور باشندوں سے حراستی کیمپوں میں جبری مشقت لینا بھی شامل ہے۔ چین ایسے دعووں کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔
آتشزدگی پر رد عمل
ارمچی کی ایک رہائشی عمارت میں آتشزدگی سے دس افراد کی ہلاکت ایک ہفتے میں اس نوعیت کا دوسرا واقعہ تھا۔ مقامی حکام کے مطابق آگ لگنے کے بعد عمارت کے مکین نیچے جانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ تاہم چینی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہنگامی عملے کی کوششوں کی ویڈیوز نے بہت سے انٹرنیٹ صارفین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ عمارت جزوی طور پر بند ہونے کی وجہ سے رہائشی بروقت وہاں سے باہر نہیں نکل سکے۔
ارمچی کے عہدیداروں نے ہفتے کو علی الصبح اچانک ایک نیوز کانفرنس میں اس بات کی تردید کی تھی کہ کووڈ انیس سے بچاؤ کے اقدامات سے فرار اور بچاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے لیکن انہوں نے اس بارے میں مزید تحقیقات کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ اگر عمارت کے رہائشی آگ سےحفاظت کا طریقہ بہتر طور پر سمجھ لیتے تو وہ بچ سکتے تھے۔
'متاثرین پر الزام لگائیں'
شکاگو یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ڈالی یانگ نے کہا کہ اس طرح 'متاثرہ کو الزام دینے‘ کا رویہ لوگوں کو غصہ دلائے گا، 'اس سے صرف عوامی اعتماد میں کمی آئے گی ۔‘ چین کےسماجی رابطے کے پلیٹ فارم ویبو کے صارفین نے اس واقعے کو ایک المیہ قرار دیا جو چین کی جانب سے اپنی زیرو کووڈ پالیسی پر قائم رہنے کے اصرار سے پیدا ہوا اور جو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
چین نے صدرشی جن پنگ کی دستخط شدہ زیرو کووڈ پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے اسے زندگی بچانے اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کودباؤ سے بچانے کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ عہدیداروں نے عوام کے بڑھتے ہوئے رد عمل اور اس پالیسی کے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کو ہونے والے نقصان کے باوجود اسے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
جب کہ ملک نے حال ہی میں اپنے اقدامات میں تبدیلی کرتے ہوئے قرنطینہ کو مختصر کیا اور دیگر اہدافی اقدامات کیے، اس کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے کیسز نے بیجنگ سمیت بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر الجھن اور غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے، جہاں بہت سے رہائشی گھروں میں بند ہیں۔ چین میں یومیہ پینتیس ہزار مقامی کیسز ریکارڈ کیے جاتے ہیں، جو عالمی معیار کے لحاظ سے کم ہیں۔ تاہم متعدد شہروں میں انفیکشن پھیلنے کے وجہ سے بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ نقل و حرکت اور کاروبار پر پابندیاں عائد ہیں۔
چین کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر اور مالیاتی مرکز شنگھائی نے ہفتے کے روز ثقافتی مقامات جیسے عجائب گھروں اور لائبریریوں میں داخلے کے لیے معائنے کی ضروریات کو سخت کر دیا۔ جس کے لیے لوگوں کو 48 گھنٹوں کے اندر منفی کووڈ ٹیسٹ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
ش ر ⁄ ا ب ا (روئٹرز)