سن انیس سو پینسٹھ کے دوران سنگاپور میں سالانہ فی کس آمدنی پاکستان کے مقابلے میں ذرا بہتر تھی لیکن افریقی ملک گھانا، جنوبی افریقہ یا میکسیکو کے تقریبا برابر تھی۔ سنگاپور کے بچے بھی غذائی قلت کا شکار تھے اور لوگوں کے گھروں میں ٹوائلٹ تک نہیں تھے۔ گلیاں آج کے کراچی کی طرح جرائم سے بھری ہوئی تھیں، لوٹ مار تھی، کسی بھی وقت، کوئی بھی کسی سے کوئی چیز چھین لیتا تھا، گینگ وارز تھیں، طاقتور کے لیے کوئی قانون نہیں تھا، جس کی لاٹھی، اسی کی بھینس تھی۔ حالات بالکل ایسے ہی تھے، جیسے کسی تیسری دنیا کے اور ایک ناکام ملک کے ہوتے ہیں۔
لیکن پھر ایک تبدیلی آئی اور یہ ملک دیکھتے ہی دیکھتے تیسری دنیا کے ممالک کی فہرست سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو گیا لیکن اس فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سنگاپور کا ایک خفیہ فارمولا تھا۔
کشور محبوبانی جیو پولیٹیکل کنسلٹنٹ اور سنگاپور کے منجھے ہوئے سفارت کار ہیں۔ انیس سو اکہتر میں انہوں نے وزارت خارجہ میں ملازمت شروع کی اور پھر اقوام متحدہ میں سنگاپور کے مستقل مندوب رہے۔ ابھی بھی دنیا کے مختلف اداروں اور تھنک ٹینکس کا حصہ ہیں، چائنا انسٹیٹیوٹ کے سینئر فیلو اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی سب سے مشہور کتاب ''کین ایشینز تھنک؟‘‘ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سنگاپور کی ترقی کا فارمولا ''ایم پی ایچ‘‘ تھا اور یہ تین ستونوں پر کھڑا فارمولا آپ کسی بھی تھرڈ ورلڈ کنٹری میں لاگو کریں، وہ ملک بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ یہ 'ایم پی ایچ فارمولا‘ یا ترقی کے یہ تین ستون یہ ہیں۔
-
میرٹو کریسی
میرٹوکریسی کا مطلب ہے کہ آپ حکومت چلانے کے لیے، ملک چلانے کے لیے اپنے بہترین لوگ چُنتے ہیں۔ تیسری دنیا یا ناکام ریاستوں کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ اہم ترین وزارتیں، کسی انکل، اپنے کسی دوست، کسی رشتہ دار یا نا اہل لوگوں کو سونپ دی جاتی ہیں۔
سنگاپور نے اس کے بالکل برعکس کیا۔ سنگاپور میں تمام اہم وزارتیں چُن چُن کر ایسے ماہرین کو دی گئیں، جو انہیں چلانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
لی کوآن ژی کو جدید سنگاپور کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے سنگاپور کے جوہڑوں کے اوپر بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر دیں۔ وہ سن 1959 سے 1990 تک سینگاپور کے وزیر اعظم رہے۔ یہ جمہوریت کا تسلسل تھا۔ وہ خود بھی پڑھے لکھے انسان تھے اور انہوں نے وزارتیں اور عہدے بھی، سمدھیوں، رشتہ داروں اور دوستوں کی بجائے صرف اہل اور قابل لوگوں دیے۔
تو سنگاپور کی ترقی کے تین ستونوں میں سے سب سے پہلا ستون میرٹوکریسی تھا، میرٹ پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا گیا۔
2. پریگماٹزم
پریگماٹزم انگلش کنسیپٹ ہے لیکن اس کی بہترین تعریف چینی لیڈر ڈینگ شیاؤ پنگ نے کی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بلی کا رنگ سیاہ ہے یا سفید، اگر بلی چوہے پکڑ رہی ہے تو وہ ایک اچھی بلی ہے۔
پالسیاں عملی اور نتائج پر مبنی ہونی چاہئیں۔ یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ پالیسیوں کے پیچھے آئیڈیالوجی کس کی ہے اور انہیں شروع کس نے کیا تھا۔
اگر کوئی کلیہ کام کر رہا ہے تو اسے استعمال کیا جائے۔ تو سنگاپور پریگمیٹک تھا۔ سنگاپور نے کچھ پالیسیاں کیپٹلزم کی اپنائیں، کچھ سوشلزم کی لیں اور بعض اوقات ان کو مکس کر دیا اور یہی پریگماٹزم ہے کہ آپ ہمیشہ کسی ایک آئیڈیالوجی سے وابستہ یا جڑے نہیں رہتے، اچھا قانون یا روایت مغرب کی ہو یا مشرق کی، آپ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
3. ہانیسٹی
ترقی کا تیسرا ستون ایمانداری یا دیانت ہے اور اس کا حصول سب سے مشکل کام ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کی ناکامی کی سب سے اہم وجہ یہی ہے کہ ایمانداری کا فقدان ہے، کرپشن ان معاشروں میں سرایت کر چکی ہے۔
لی کیوآن ژی نے سنگاپور کا وزیراعظم بننے کے بعد چھوٹے لوگوں کی بجائے بڑے لوگوں کی کرپشن پکڑنے کا فیصلہ کیا، ان لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا گیا، جن کے عہدے بڑے تھے، یا جن کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔ ایک مرتبہ جب سنگاپور کا ڈپٹی منسٹر اپنے دوست کے ساتھ چھٹیوں پر گیا، جو کہ ایک بزنس مین بھی تھا، تو واپسی پر ڈپٹی منسٹر کو گرفتار کر لیا گیا۔
ڈپٹی منسٹر نے پوچھا کہ اُسے گرفتار کیوں کیا گیا ہے؟ تو اسے جواب دیا گیا کہ تمہارے سفری اخراجات تمہارے بزنس مین دوست نے اٹھائے ہیں اور یہ کرپشن ہے، اب تمہیں جیل جانا ہو گا۔ ایسے واقعات کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹے عہدوں پر فائز لوگ خود بخود محتاط ہو گئے کہ بڑوں کو نہیں چھوڑا جا رہا تو ان کا کیا بنے گا؟
تو یہ ایمانداری کا جو عنصر ہے، اس نے واضح طور پر سنگاپور کو وہاں پہنچایا، جہاں وہ آج کھڑا ہے۔ آج کے سنگاپور کی کامیابی اور ترقی کی عمارت ان تین پالیسیوؤں (میرٹ، پریگماٹزم اور ایمانداری) پر کھڑی ہے۔
اب آپ آج کے پاکستان پر نظر ڈالیں تو یہ وہاں ہی کھڑا ہے، جہاں آج سے ساٹھ برس پہلے سنگاپور کھڑا تھا۔ ملک کی زیادہ تر وزارتیں ان کے ہاتھ میں ہیں، جنہوں نے کبھی یونیورسٹی کا منہ تک نہیں دیکھا، پارلیمان ایسے چوہدریوں، وڈیروں اور زمینداروں سے بھری پڑی ہے، جنہوں نے زندگی میں گن کر کوئی دس کتابیں مکمل نہیں پڑھیں۔
کک بیکس، کرپشن اور پرسنٹیج کا سلسلہ طاقت کے اعلیٰ ایوانوں سے شروع ہوتا ہے اور دفتر کا چپڑاسی تک رشوت لے کر آپ کے نمبر آگے پیچھے کر رہا ہوتا ہے۔ ہم اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز کی بات نہیں کرتے، ہمارے پولیس اور سرکاری افسران کے گھر کروڑوں مالیت کے ہیں، ہماری جرنیلوں کے کاروبار دبئی میں ہیں، ہمارے دفتروں میں کوئی فائل ایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل تک اُس وقت نہیں پہنچتی، جب تک اس کے نیچے رشوت کے پہیے نہیں لگ جاتے۔
ہمیں آج پتہ چل جائے کہ وزیر اعظم کے کسی خصوصی مشیر کا تعلق کسی دوسرے فرقے سے ہے تو ہم اس کی قابلیت دیکھنے کے بجائے مذہب کا رونا ڈال کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔
آج سنگاپور کی سالانہ فی کس آمدنی تقریبا ستر ہزار امریکی ڈالر ہے اور پاکستان میں یہ تقریبا پندرہ سو ڈالر سالانہ بنتی ہے۔ پاکستان اگر کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اسے بھی اپنی ترقی کی عمارت جمہوری بنیادوں پر اور ان تینوں ستونوں پر اٹھانا ہو گی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔