سوئس حکام کو خط، تیسری مرتبہ مزید مہلت
5 اکتوبر 2012جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعے کے روز این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ آج وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے سوئس حکام کے نام مجوزہ خط کا ترمیم شدہ مسودہ عدالت میں پیش کیا۔ ججوں نے عدالتی وقفہ کر کے اس مسودے کا جائزہ لیا اور بعد ازاں اسے عدالتی حکم سے عدم مطابقت کی بناء پر مسترد کر دیا۔
جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ خط کا مسودہ عدالتی حکم کی روح کے مطابق نہیں ہے۔ اس موقع پر وزیر قانون نے اس مسودے کے متن کو حساس قرار دیتے ہوئے عدالت میں افشا نہ کرنے کی استدعا کی۔ انہوں نے ججوں سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کی بند کمرے میں سماعت کریں تو ان کے تحفظات دور کیے جا سکتے ہیں۔ اس پر ججوں نے ایک مرتبہ پھر عدالتی وقفہ کرتے ہوئے فاروق نائیک کو اپنے چیمبر میں طلب کر لیا۔
چیمبر سے واپسی کے بعد جب عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو وزیرقانون نے کہا کہ انہیں خط کے مسودے پر وزیر اعظم سے مشاورت کے لئے وقت دیا جائے کیونکہ اس بارے میں حتمی فیصلہ وزیر اعظم کو ہی کرنا ہے۔ اس پر عدالت، جس نے 26 ستمبر کی سماعت میں حکومت کو خط کے مسودے کی تیاری کے لئے آج (پانچ اکتوبر) تک کی حتمی مہلت دی تھی، نے مقدمے کی سماعت ایک مرتبہ پھر 10 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں بہت سا سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں، اس لئے اس پیشرفت کو ضائع ہونے سے بچانے کےلئے عدالت حکومت کو مزید وقت دے رہی ہے۔
بعد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق نائیک نے کہا کہ خط کے مسودے پر کچھ عدالت کے اور کچھ ہمارے تحفظات تھے، اس لئے عدالت سے مزید مہلت مانگی گئی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا بار بار بند کمرے کی سماعت سے شفافیت کا پہلو متاثر نہیں ہو رہا، فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا:’’کئی چیزیں الجھی ہوئی ہیں، عدالت کے اندر ان چیزوں کا ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر جج صاحبان نے مجھے اپنے چیمبر میں بلایا ہے تو میں سمجھتاہوں کہ انہوں نے بہت اچھی بات کی ہے۔ اس سے شفافیت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ ہم نے اپنا موقف بیان کیا، ان کا اپنا موقف ہے، اپنی سوچ ہے۔“
دوسری جانب بعض وکلاءکا کہنا ہے کہ عدالت کے مسلسل اصرار اور حکومت کی طرف سے گزشتہ تین سماعتوں کے موقع پر اپنائے گئے رویے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر عدالت اور حکومت کے موقف میں واضح فرق اب بھی موجود ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کے مطابق اصل مسئلہ عدالتی حکم کے مطابق صدر کے خلاف مقدمات کی بحالی کے لئے خط لکھنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت یہ بھی چاہتی ہے کہ حکومت سوئس حکام کے نام خط میں صدارتی استثنیٰ کی بات نہ کرے۔ جسٹس طارق محمود نے کہا:’’حکومت نے اس خط میں یہ ضرور کہنے کی کوشش کی ہو گی کہ اس وقت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے، اس لئے یہ مقدمات نہیں چل سکتے۔ شاید عدالت کو اسی بات پر تحفظات ہیں۔ یہ معاملہ یہاں آ کر رک گیا ہے، یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مقدمے کو بہت پہلے ختم ہو جانا چاہیے تھا۔“
خیال رہے کہ عدالت نے گزشتہ سماعت کے موقع پر کہا تھا کہ پانچ اکتوبر تک حکومت نے سوئس حکام کے نام خط کے مسودے کو حتمی شکل نہ دی تو وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔ اس سے قبل سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی عدالتی حکم کے مطابق سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں پانچ سال کے لئے نا اہلی کی سزا ہوئی تھی۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عدالت کے سامنے حکومتی رویہ دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی عدالتی حکم پر اپنے صدر کے خلاف ایسا خط نہیں لکھے گی، جس سے سوئس مقدمات دوبارہ کھل جانے کا احتمال ہو۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی