سوات میں ابھی بھی طالبان کا خوف
22 مارچ 2010وادئ سوات میں طالبان کو اگرچہ بظاہر شکست دی جا چکی ہے لیکن مقا می لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی ان کا خوف موجود ہے کیونکہ سرکاری عہدیداروں کے مطابق بہت سے ایسے عسکریت پسند تا حال گرفتار نہیں کیے جا سکے ہیں جن کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ کسی بھی وقت خود کش حملے کر سکتے ہیں۔ کشور بیگم بھی ایک ایسی ہی ممکنہ خود کش حملہ آور خاتون ہے جس نے نرسنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اوراخبار میں شائع ہونے والی اس کی تصویر کے مطابق وہ اب انسانی جانوں کو بچانے کی بجائے، انہیں ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔
سوات جو کبھی طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، ایک سال قبل پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے بہت سے عسکریت پسندوں کو مار دیا اورکچھ بھاگ گئے جن کے بارے میں مقامی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ واپس آئیں گے۔ مینگورہ کے بازار میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر حال ہی میں ہونے والا حملہ، جس میں14 افراد جاں بحق اور50 زخمی ہو گئے تھے، یہاں اس خطرے کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے کہ وہ ممکنہ خود کش حملہ آور علاقے میں موجود ہیں۔ ان کی عمریں 16 اور 21 سال کے درمیا ن ہیں اور وہ مبینہ طور پر ایسی مزید کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
سوات میں پولیس کے سربراہ قاضی غلام فاروق کا کہنا ہے کی طالبان دوبارہ آکر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے اکٹھے ہو رہے ہیں اور جہاں تک خود کش حملوں کا تعلق ہے تو ان کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ پولیس پر طالبان کے پے در پے حملو ں کے بعد بہت سے پولیس اہلکار بھا گ کر چھپ گئے تھے لیکن غلام فاروق یہاں موجود رہا۔ وہ ان پچاس کے قریب اہلکاروں کو واپس یہاں آنے کی ترغیب دلا رہا ہے۔ سوات، جو کبھی خوبصورت آبشاروں، دریاؤں اور سر سبز پہاڑوں کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے، کی آبادی 13 لاکھ کے قریب ہے اورحالیہ جنگ کے بعد یہاں لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات پہنچانے کی غرض سے انہیں وسائل کی فوری فراہمی انتہائی ضروری ہے۔
سوات کی طرح جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف کارروائی ہونے کے بعد ان کی طرف سے جوابی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پوری سوات وادئ میں اس وقت 8 بکتر بند گاڑیاں ہیں اور یہاں فوج اور پولیس کے اہلکار وں کو عسکریت پسندوں کے حملوں سے بچانے کے لئے ابھی ایسی مزید سترہ گاڑیوں کی ضرورت ہے۔ بعض لوگوں کو ابھی تک اس بات کا پورا یقین نہیں ہے کہ فوج کی کامیابی کے بعد اب طالبان واپس نہیں آ ئیں گے۔ جمرالدین خان ایک بوڑھا شخص ہے جو کئی سیاسی اور فوجی ادوار دیکھنے کے بعد طالبان کا حالیہ دور بھی دیکھ چکا ہے، کہتا ہے ’ہمارے ساتھ پہلے بھی ایسے ہوتا رہا ہے۔ فوج ہمیشہ عسکریت پسندوں کا ساتھ دیتی ہے‘۔
لیکن اس کے برعکس باقی لوگوں کو یہاں تعینات پچاس ہزار فوجیوں پر مکمل اعتماد ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ گرین چوک جس کو طالبان نے "مذ بح خانہ" کا نام دیا تھا اب وہاں نیٹ کیفے ہیں، جن کا اس وقت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، کیونکہ انہوں نے تمام ایسی چیزوں پر پابندی لگا دی تھی۔ ان دنوں عسکریت پسند مقامی لوگوں کا سر قلم کر کے ان کی لاشوں کو ٹیلی فون کے کھمبوں کے ساتھ لٹکا دیتے تھے اور کئی کئی دن تک کسی کو یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ ان کو اتار کر دفنایا جا سکے۔
الطاف حسین کے ذہن پر اب بھی وہ بے رحم تصویر نقش ہے جب اس نے کئی مواقعوں پر طالبان کو لوگوں کا سر قلم کرتے ہوئے دیکھا۔ الطاف حسین کو آٹھ ماہ قبل پولیس میں ملازمت ملی تب سے وہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
رپورٹ : بخت زمان
ادارت : کشور مصطفی