1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آفاتعالمی

سونامی کیسے بنتے ہیں؟

5 مئی 2024

سائنسدانوں کے مطابق سونامی کا سبب بننے والی سمندری لہریں کم بلندی والی لیکن انتہائی تیز رفتار ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق سونامی کی پیشگی اطلاع دینے کا نظام ہر ملک کو یکساں طور پر میسر نہیں۔

https://p.dw.com/p/4fOvg
تھائی لینڈ نے 2004 کے سونامی کے بعد بڑے پیمانے پر تباہی دیکھی
تھائی لینڈ نے 2004 کے سونامی کے بعد بڑے پیمانے پر تباہی دیکھیتصویر: Pornchai Kittiwongsakul/AFP/Getty Images

سونامی سے نقصان پہنچنے کے امکانات شاذو نادر ہی ہوتے ہیں لیکن اگر ایسا ہو جائے تو یہ بہت ہی تباہ کن ہو سکتا ہے۔ سونامی عام طور پر سمندر کے نیچے ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کے سبب زلزلوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ زیر آب یہ اچانک حرکت پانی کی ایک بڑی مقدار کی نقل مکانی کا سبب بنتی ہے، جو سمندر میں لہریں برپا کر دیتی ہے۔

ان لہروں کی بلندی اکثر کم ہوتی ہے لیکن یہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ 800 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی اسپیڈ سے سینکڑوں میل کا سفر طے کر سکتی ہیں۔ سونامی کا سمندر کے ذریعے سفر کرنے اور ساحل تک پہنچنے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ پانی کے اندر زلزلے کا مقام کہاں ہے۔

انڈونیشیا میں حال ہی میں ایک لاوا پھٹنے کے بعد سونامی کی وارننگ جاری کی گئی
انڈونیشیا میں حال ہی میں ایک لاوا پھٹنے کے بعد سونامی کی وارننگ جاری کی گئی تصویر: Hendra Ambalao/AP/dpa/picture alliance

سونامی کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے؟

جو لہریں سونامی بناتی ہیں، وہ عام طور پر انسانی آنکھ کے لیے اس وقت تک قابل توجہ نہیں ہوتیں، جب تک کہ وہ ساحل کے قریب نہ ہوں۔ وہ ایک قطار میں متعدد لہروں کے ایک سلسلے کے طور پر زمین پر ظاہر ہوتی ہیں اور پانی کی بڑی بڑی دیواروں کی شکل اختیار کرتے ہوئے لوگوں، عمارتوں، کاروں اور درختوں کو بہا لے جا سکتی ہیں۔

ورجینیا ٹیک میں جیو سائنسز کے شعبہ میں قدرتی خطرات کے پروفیسر رابرٹ ویس نے ایک ای میل میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ لہریں طویل وقفوں سے زمین سے ٹکراتی ہیں، جن کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا، ''ان لہروں کی آمد کا نمونہ کافی پیچیدہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ لہریں پیچیدہ خصوصیات کی حامل  ہیں۔‘‘

اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا،  ''صرف ایک تالاب میں دو پتھر پھینکیں اور ان کی تشکیل کردہ پیچیدہ لہروں کا مشاہدہ کریں۔ ان سے ایسا کوئی معیاری فاصلہ اور نمبر نہیں نکلتا، جس پر کوئی بھروسہ کر سکے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ریکٹر اسکیل پر 6.5 سے بڑے زلزلے عام طور پر سونامی کا باعث بنتے ہیں۔ ایک سے لے کر دس تک کے درمیان نمبروں پر مشتمل یہ پیمانہ زلزلوں کی شدت کی درجہ بندی سیسموگراف نامی ڈیوائس کے ذریعے کرتا ہے۔

ایک کی شدت والے زلزلے عام ہیں اور عمومی طور پر ان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا جبکہ 10 کی شدت کے زلزلے بہت کم ہوتے ہیں لیکن یہ تباہ کن ہو سکتے ہیں۔

بعض مرتبہ سونامی پانی کے اندر آتش فشاں پھٹنے، لینڈ سلائیڈنگ یا شہاب ثاقب کے سمندر سے ٹکرانے کی وجہ سے بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

سونامی کہاں آتے ہیں؟

سونامی عام طور پر بحر الکاہل میں 'رنگ آف فائر‘ کے ارد گرد کے علاقے میں آتے ہیں۔ یہ علاقہ ایک ٹیکٹونک پلیٹ پر مشتمل ہے، جس میں آتش فشاں اور زلزلے آتے ہیں۔ امریکی ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ( این او اے اے) میں سونامی پروگرام کے مطابق پچھلی صدی میں آنے والے سونامیوں میں سے تقریباً 80 فیصد اسی علاقے میں آئے۔

تاریخ کے سب سے تباہ کن سونامیوں میں سے ایک 2004ء میں انڈونیشیا  کے جزیرے سماٹرا میں آیا تھا،  جب ساحل پر  9.1 شدت کے زلزلے کے بعد  سونامی 50 میٹر کی بلندی تک پہنچا اور اس نے آبادی کے پانچ کلومیٹر اندر تک کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیا، جس سے تقریباً 230,000 افراد ہلاک ہوئے۔

جاپان کے مرکزی جزیرے ہونشو کے ساحل پر 2011ء کا زلزلہ اور سونامی بھی اپنی تباہی کے لیے مشہور ہے۔ نو اعشاریہ صفر کی  شدت کے زلزلے کے نتیجے میں آنے والے سونامی کی وجہ سے تقریباً 20,000 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ویس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سونامی نے بھی آبادی والے علاقے کے تقریباً 5 کلومیٹر کے حصے کو متاثر کیا تھا۔

بحر اوقیانوس اور بحیرہ کیریبین، بحیرہ روم اور بحر ہند بھی سونامی کے تجربات کر چکے ہیں۔

ہم کیسے جانتے ہیں کہ سونامی آنے والا ہے؟

سونامی کب اور کہاں سے ٹکرائے گی اس کا صحیح اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ پروفیسر رابرٹ ویس کے مطابق،  ''مسئلہ یہ ہے سونامی کی سب سے عام وجہ زلزلے ہیں اور ان کے بارے میں بہت زیادہ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی یہ کہنا ممکن ہے کہ یہ کہاں، کب، کتنی گہرائی اور کس شدت کے ساتھ آ سکتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ زلزلے اور  اس کے بعد سونامی کے نمودار ہونے کے درمیان کا وقت کم ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''اس طرح کے واقعات کے لیے تیاری بہت ضروری ہے لیکن کسی ایسی چیز کے لیے تیاری کرنا مشکل ہے جس کا تجربہ لوگ اپنی زندگی میں دو بار شاذ و نادر ہی کرتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''بڑے زلزلے اور اس کے نتیجے میں سونامی عالمی سطح  پر اکثر رونما ہو سکتے ہیں لیکن یہ شاذ و نادر ہی ایک خطے میں ایک ہی تباہ کن سطح پر دو بار رونما ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے  کہ اچھی وارننگ کے ساتھ ساتھ تیاری بھی بہت ضروری ہے۔ ان دونوں عوامل میں سے صرف ایک یا دوسرے کا ہونا  ہی کافی نہیں ہے۔‘‘

عالمی سونامی انتباہی مراکز آبزرویشن سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے سمندروں کو اسکین کرتے ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ پانی کے اندر زلزلے کب آ سکتے ہیں اور مقامی حکام خطرے کا پتہ چلنے پر انتباہ بھیجتے ہیں۔

لیکن اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یہ نظام ہر جگہ موجود نہیں ہیں۔ اس عالمی ادارے نے 2023 میں کہا تھا، ''دنیا کے نصف ممالک میں(انتباہ کے)  مناسب نظام کی کمی ہے اور یہاں تک کہ بہت ہی کم ممالک نے ان نظاموں کی تیاری اور ردعمل کو باہم مربوط کرنے کے لیے قانون سازی کی ہے۔‘‘

 ''سونامی کے اثرات کا تجربہ یکساں طور پر نہیں کیا جاتا: غریب اور سماجی رکاوٹوں کا سامنا کرنے والے لوگ اکثر سونامی کی نوعیت کے حادثات میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔‘‘

کلئیر روتھ ( ش ر ⁄ ا ا)

انڈونیشیا میں زلزلے کے بعد سونامی