سپر کمپیوٹر ایک جادوئی ایجاد
6 جنوری 2009کمپیوٹر کی ایجاد اگرچہ پچھلی صدی میں ہوئی مگر وہ اس صدی میں زندگی کی بنیادی ضرورت کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ زندگی کی تقریبا تمام ضروریات کسی نہ کسی طرح کمپیوٹر سے جڑتی چلی جا رہی ہیں۔ کمپیوٹر کی اسی افادیت نے انسانی دھیان سپرکمپیوٹر کی جانب دلایا جس کے باعث برق رفتاری سے حساب کرنے والے کمپیوٹر سے بھی ہزارہا گنا تیز سپر کمپیوٹر ایجاد ہو گیا۔
آج کل ہر چھ ماہ بعد سپر کمپیوٹرز کے حوالے سے عالمی رینکنگ کی جاتی ہے۔ جدید ترین فہرست میں کچھ عرصے قبل تک جرمن ادارے Jülich کا سپر کمپیوٹر دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر تھا۔
ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے Jülich میں کام کرنے والے ایک پاکستانی سوفٹ وئیر انجنئیر شیرازاحمد نے کہا کہ سپر کمپیوٹر میں بیک وقت موجود ہزاروں پروسیسرز مشکل سے مشکل تخمینوں کو لمحوں میں حل کر لیتے ہیں اور سپر کمپیوٹرزخاص طورپرجینٹیکس اورایٹمی و نیوکلیائی سائنس میں درکارہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے پاس سپر کمپیوٹر موجود ہے مگر پاکستان کے پاس اب تک کوئی سپرکمپیوٹر نہیں تاہم شیرازاحمد نےبتایا کہ جن ممالک کے پاس سپر کمپیوٹرز نہیں ہوتے وہ بہت سے کمپیوٹرز کو ملا کرایک مشین بنا لیتے ہیں جو مشکل تخمینوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ شیراز احمد نے کہا کہ جرمنی کا سپر کمپیوٹر دنیا کا سب سے تیز رفتار سپر کمپیوٹر تھا تاہم نئی فہرست کے مطابق اب یہ اعزازامریکہ کو حاصل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی سپر کمپیوٹر 'روڈرنر‘ اس وقت دنیا کا سب سے تیز سپر کمپیوٹر ہے جس میں لگائے گئے پروسیسرز کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔
شیراز احمد جو ان سپرکپمیوٹرز کے لئے سوفٹ وئیرز تیار کرتے ہیں انہوں نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ سپر کمپیوٹرز پر چلنے والے پروگرام عام کمپیوٹروں پر چلنے والے سوفٹ وئیر سے مختلف ہوتے ہیں۔
شیراز کا کہنا تھا کہ پہلے سپر کمپیوٹر حجم میں بہت بڑے ہوا کرتے تھے تاہم مسلسل تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بعد سائنسدان اب اس کے حجم کو محض ایک الماری کے برابر کردینے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔