سکردو، بے یارومددگار زلزلہ متاثرین تاحال خوف کے سائے تلے
2 اکتوبر 202232 سالہ تازرہ بیگم چھ مہینے قبل ضلع سکردو کے سب ڈویژن روندو میں اپنے آبائی گاؤں گنجی سے گلگت دنیور منتقل ہوگئی تھیں۔ وہ اب پانچ بچوں کے ہمراہ اپنےبھائی کے گھر میں عارضی طور پر مقیم ہیں۔ تازرہ بیگم کا کہنا ہے کہ 27 دسمبر 2021 کو سب ڈویژن روندو میں جو زلزلہ آیا تھا اس کی وجہ سے ان کا گھر، مال مویشی، زرعی زمینیں اور سب کچھ تباہ ہوگیا اور زلزلے کے آفٹرشاکس کا سلسلہ جاری رہنے کے باعث نہ صرف انہیں اپنے گھر چھوڑنا پڑا بلکہ ان کے گاؤں سمیت سب ڈویژن روندو کو حکومت گلگت بلتستان نے آفت زدہ قرار دیدیا۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے تازرہ بیگم نے بتایا، ''پانچ راتیں ہم نے کھلے آسمان تلے خوف کے سائے میں گزاری، گھر کی طرف نظر دوڑاتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا جو ہماری آنکھوں کے سامنے ریت کا ڈھیر بن کر مٹی میں مل گیا تھا، معمولی سی آہٹ سن کر بھی بچے میرے پیروں سے لپٹ کر واویلا مچاتے تھے، ہمارا ہر دن ایک نئی کربلا کا منظر پیش کررہا تھا، تین وقت کی روٹی ہمارا خواب بن گیا تھا بمشکل ایک وقت کی روٹی پہ گزارا کرتے تھے اور چار ماہ تک اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر زندگی گزاری ۔‘‘
آفت زدہ علاقہ
گلگت اور سکردو کو آپس میں ملانے والا علاقہ روندو گنجان آبادی پر مشتمل ہے، انتظامی اعتبار سے یہ علاقہ سب ڈویژن قرار دیا گیا ہے۔ 27 دسمبر 2021 سے شروع ہونے والے زلزلے کے جھٹکوں اور آفٹرشاکس سے روندو کی دو یونین کونسلیں، گنجی اور استک، بری طرح متاثر ہوئیں۔ ڈپٹی کمشنر سکردو حافظ کریم داد چغتائی کے مطابق جیالوجیکل سروے مکمل ہونے کے بعد اس علاقے کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے اور یہاں سے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے۔ اس علاقے کی سڑکیں بری طرح تباہ ہوگئیں تھیں جنہیں بحال کردیا گیا ہے، 200 سے زائد واٹر چینل تباہ ہوگئے تھے جن میں سے اکثر کو پھر سے بحال کردیا گیا ہے اور باقی مانندہ کی بحالی پر اب بھی کام جاری ہے۔ ڈپٹی کمشنر سکردو کریم داد چغتائی نے بتایا کہ نقل مکانی کرنے والے دوہز ار گھرانوں کو فی کس ایک لاکھ دس ہزار روپے کی امدادی رقم بھی فراہم کر دی گئی ہے۔
سست رفتار بحالی
28 سالہ بہار شاہد بھی یونین کونسل استک کے زلزلہ متاثرین میں شامل ہیں، جو اس وقت اپنے گھر کو چھوڑ کر ایک عارضی خیمے میں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپریل سے مئی تک تو ہم زلزلہ کی آغوش میں ہی رہے ہیں تاہم اپریل اور مئی کے بعد سے حکومت نے لوگوں کو متا ثرہ علاقے سے نکالنا شروع کردیا اور انہیں امداد کی مد میں مجموعی طور پر 12 کروڑ روپے کی رقم بھی فراہم کی گئی۔ تاہم ایک متاثرہ کنبے کے لیے دو ہزار روپےکی رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ ابھی تک حکومت نے علاقے میں نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے کوئی سروے نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے متاثرین کی بے چینی اور تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ متاثرین اپنے ہنستے بستے گھر چھوڑ کر ایک ٹینٹ میں زندگی گزار نے پر مجبور ہیں، جہاں پر بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ مقامی حکومت کی جانب سے نقصانات کے معاوضے، آباد کاری اور دوبارہ گھروں کی تعمیر کےا علانات پر ابھی تک کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ بعض علاقوں میں واٹر چینلوں سمیت تمام کے تمام نقصانات جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں اور وہاں سرے سے بحالی کا کام کیا ہی نہیں گیا۔
حکومتی توجہ کے منتطر متاثرین
یونین کونسل گنجی کے متاثرین کی نمائندگی کرنے والے محمد اکبر بھی اپنا گھر چھوڑ کر اہل خانہ کےہمراہ ایک قریبی لیکن نسبتاﹰ محفوظ مقام پر خیمہ زن ہیں۔ اکبر کا کہنا ہےکہ وزیراعظم پاکستان نے حالیہ سیلابوں سے متاثرہ افراد کے لیے بجلی اور دیگر یوٹیلٹی بل معاف کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ گانجی کے متاثرین سے ان کے تباہ شدہ گھروں کے یوٹیلٹی بل بھی وصول کیے جارہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے محمد اکبر نے کہا، ''ہماری زراعت تباہ ہوگئی ہے، جن کھیتوں سے ہم آلو کی فصل اگاکر 50 ہزار روپےکما لیتے تھے وہ اب ان کی پیداوار سے بمشکل 10 ہزار روپے کما پاتے ہیں کیونکہ پانی کی عدم دستیابی سے زمین کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوگئی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے راشن اورکرائے کی مد میں رقم کے علاوہ کچھ ٹینٹ ہمیں فراہم کرنے کے بعد پیچھے مڑکر بھی متاثرین کی طرف نہیں دیکھا۔ زلزلے سے دو میگا واٹ بجلی پیدا کرنےوالا ایک پاور ہاؤس بھی تباہ ہوگیا تھا جس کی بحالی کے لئے آٹھ کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے، سینکٹروں تباہ شدہ گھرانوں کا سروے نہیں کیا گیا۔ ہمارے ساتھ دوسرے یا تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک نہیں ہونا چاہئے۔ ہم پر مسلسل دباؤ ہے کہ اس علاقے کو چھوڑ کر کہیں اور جاکر بس جائیں مگر اتنے وسائل نہیں کہ اپنی جنم بھومی چھوڑ کر کہیں اور جا آباد ہوں۔
نفسیاتی دباؤ
بار بارآنے والے زلزلے کے جھٹکوں سے تنگ آکر ہجرت کرنے والی تازیرہ بیگم کہتی ہیں،'' ہمارا گھرانہ 18 افراد پر مشتمل ہے اور ہمیں عارضی رہائش کے لیے صرف ایک ٹینٹ مہیا کیا گیا تھا جس میں زندگی گزارنا معمولی بات نہیں تھی، جو مال مویشی بچ گئے تھے انہیں سستے داموں فروخت کرکے گلگت میں بھائی کے پاس آکر بیٹھ گئ ہوں اور مال مویشی بیچ کر جو رقم ملی تھی اسی سے بچوں کو کھانا کھلارہے ہیں باقی بچوں کی پڑھائی جیسی ساری چیزیں ہم سے چھن گئی ہے۔ آفت زدہ علاقے سے نکل کر آنے کے باوجود کئی دوسری خواتین اور بچوں کی طرح ہم بھی نفسیاتی دباؤ سے تاحال نکل نہیں پائے ہیں۔ سڑک پر موٹر سائیکل گزرنے کی آواز سے بھی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دم پہاڑوں سے پتھروں کی بارش کا منظر نظروں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔
گنجی یونین کے متاثرین کے رہنما اکبر کہتے ہیں کہ اسی زلزلے کے دوران ایک خاتون کو زچگی کی تکلیف ہوئی تو محلے کے لڑکوں نے انہیں کاندھا دیکر مرکزی سڑک تک پہنچایا، تاہم خیموں تک پہنچنے کا راستہ بھی کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔ ہمیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت بہت ساری اموات کی منتظر ہے۔ سکولوں پر تالے لگے ہوئے ہیں پھر بھی کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے۔
فہیم اختر، گلگت