سہ فریقی مذاکرات پاکستان میں جاری
2 اگست 2011اسلام آباد میں ہونے والے ان سہ فریقی مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب مارک گروسمین جبکہ پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر اور افغان وفد کی سربراہی نائب وزیر خارجہ جاوید لودھی کر رہے ہیں۔ اجلاس میں تینوں ممالک کے فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حکام بھی شریک ہیں۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں خطے میں سلامتی کی صورتحال ، سرحد پار دہشتگردی کی روک تھام اور خفیہ معلومات کے تبادلے پر بات چیت کی جا رہی ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کا ایک بڑا مقصد امریکی انخلاء والے علاقوں میں امن و امان کا قیام بھی ہے انہوں نے کہا، ’’افغانستان کی جو افواج ہیں ان کے پاس اتنی استعداد نہیں کہ وہ دراندازوں یا مخالف قوتوں کا مقابلہ کر سکیں اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنانے پر غور ہوگا کہ جس کے ذریعے مفاہمت کے عمل اور وہاں پر موجود خلفشار اور مسلح تصادم کے خاتمے اور صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔ اس حوالے سے پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ جن افغان گروپوں پر اس کا اثر و رسوخ ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے ان کو مفاہمتی عمل میں شامل کیا جائے۔‘‘
بعض حلقے اس بات پر تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ اگر امریکہ 2014 ء تک افغانستان سے نکل گیا تو پھر اس پورے خطے میں عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں ابھی تک طالبان اور القاعدہ کے شدت پسندوں کا مکمل صفایا نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان کے سابق سفیر اور تجزیہ نگار رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ امریکہ کو خود بھی یہ بات واضح نظر آ رہی ہے کہ اس کا جلد بازی میں افغانستان سے نکلنا پوری دنیا کے لیے خطرناک ہوگا۔
رستم شاہ مہمند نے کہا، ’’امریکہ مستقبل میں اس خطے سے نہیں جائے گا کیونکہ ان کے عزائم چین کو محدود کرنے اور ایران کو روکنے اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ذخائر سے استفادہ کرنے کے بھی ہیں اور پاکستان کے جوہری اثاثوں پر نظر رکھنے کا معاملہ بھی ہے۔ تو میں نہیں سمجھتا کہ ان عزائم کے ہوتے ہوئے امریکہ جلد بازی کرے گا۔‘‘
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: امتیاز احمد