کھٹمنڈو کی سیاحت ماؤنٹ ایورسٹ کے گرد گھومتی ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ سطح سمندر سے 29 ہزار فٹ بلند ہے اور دنیا کی بلند ترین چوٹی ہے، یوں کہہ لیں ہم دنیا والوں کی چھت ہے۔ اسے محض دور سے دیکھنے، اس کے بیس کیمپ میں چند دن گزارنے یا اس کی چوٹی کو سر کرنے کے لیے کوہ پیما دنیا بھر سے کھٹمنڈو کا سفر کرتے ہیں۔
ناروے سے دوحہ اور دوحہ سے کٹھمنڈو، جس فلائٹ سے میں نے سفر کیا، اس میں کئی یورپی مسافروں کے سفری بیگ، لباس اور چہرے بتا رہے تھے کہ وہ نیپال صرف ماؤنٹین ایڈونچر کی خاطر جا رہے ہیں۔
کٹھمنڈو کی سڑکوں پہ ٹریفک کا ایک اژدہام تھا اور لگ بھگ ہر تھوڑے فاصلے پہ کسی نہ کسی رہائشی ہوٹل کا بورڈ لگا نظر آ جاتا۔ یوں لگتا ہے کھٹمنڈو سیاحوں کے لیے بنایا گیا شہر ہے، جسے کوہ پیماؤں کے لیے سجایا گیا پہلا اسٹاپ ہو یا شہری سہولیات کے ساتھ پہلا بیس کیمپ۔
کھٹمنڈو کے ہر گلی کوچے، سیاحتی مقامات اور جگہ جگہ کوہ پیمائی کی مناسبت سے بنی دکانیں دیکھ کر سوچا کہ یہ سب اتنے ہی بڑے پیمانے پر گلگت بلتستان اور مالا کنڈ ڈویژن کے علاقوں میں بھی ہو سکتا ہے۔
ماؤنٹ ایورسٹ کو، جس طرح نیپال نے کیش کرایا، یہ تو ہم بھی اپنی کے ٹو کی چوٹی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ آخر کو دنیا بھر کی بلند چوٹیوں میں کے ٹو پہاڑ ماؤنٹ ایوریسٹ کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ کے ٹو ہی کیا پاکستان کا شمال تو ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کا گیٹ وے ہے۔
یہی سوال میں نے نیپال میں جدید سیاحت کے بانی سمجھے جانے والے ہوٹل کھٹمنڈو گیسٹ ہاؤس کے سی ای او راجن شاکیا کے سامنے رکھا۔
راجن شاکیا کا خاندانی بزنس سیاحت ہے۔ ان کے خاندان نے کٹھمنڈو کے علاقے تھامل سے ہوٹل بزنس کی شروعات پچاس برس پہلے کی تھیں۔ اب نیپال کے مختلف سیاحتی مقامات پہ ان کے نصف درجن ہوٹلز ہیں، جو کہ پیشہ ور ماوئنٹنئرز، ہائیکرز اور سیاحوں کا عارضی مسکن ہیں۔
راجن شاکیا بتا رہے تھے کہ کیسے ماؤنٹ ایورسٹ کئی برسوں سے نیپال کو کما کر دے رہا ہے، ماؤنٹین ایڈونچر، بدھ ازم کی تاریخی عمارات اور سیاحت کی انڈسٹری نے نیپال کو ہاٹ اسپاٹ بنا رکھا ہے۔
بظاہر سب کو یہی لگتا ہے کہ نیپال کی ٹورازم انڈسٹری پنپ رہی ہے، میں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی کہ بھئی واہ کروڑوں ڈالرز صرف سیاحت سے بن جاتے ہیں۔ لیکن راجن شاکیہ کو اس سے اتفاق نہ تھا۔ وہ کہنے لگے، ''بغیر کسی تحقیق اور پلاننگ کے نیپال نے اپنی ٹورازم انڈسٹری کو پھیلا تو لیا لیکن اب ہمیں موسمیاتی تبدیلی، گلیشئیرز پر کچرے، کٹھمنڈو کی فضائی آلودگی اور برفیلے گلیشیئرز کی پگھلنے جیسے مسائل کا سامنا ہے، جس کے لیے نہ ہماری کوئی جامع پالیسی ہے اور نہ ہی اتنے وسائل ہیں۔
میں نے پوچھا کہ آخر سیاح کیسے ماحول کو اتنا آلودہ کر سکتے ہیں اور اگر کرتے بھی ہیں تو وہ ٹورازم کی مد میں ادائیگی کرتے ہیں۔ کوہ پیمائی کے لیے، جو کلائمبنگ پرمٹ جاری ہوتے ہیں، اس کی مد میں بھی نیپال سالانہ لاکھوں ڈالر کما لیتا ہے۔ حکومت باآسانی ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے اقدامات کر سکتی ہے۔
راجن شاکیا نے کوہ پیمائی کے لیے مخصوص چھڑی کی طرف اشارہ کیا، ''یہ اسٹک بمشکل دس ڈالر کی ہو گی مگر اسے بلند پہاڑ سے اٹھا کر ٹھکانے لگانے پہ سو ڈالر کا خرچہ آتا ہے، پہاڑوں کی ٹریکنگ پہ جانے والے چاکلیٹ بارز کھاتے ہیں اور ریپر وہیں پھینک آتے ہیں۔ پہاڑ ہی کیا یہاں کھٹمنڈو شہر کے اندر کچرے کی ری سائیکلنگ کا کوئی نظام نہیں، جو علیحدہ چیلنج بنا ہوا ہے، سیاحت کی انڈسٹری سے ہم جتنا کما رہے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ ہم آلودگی کی شکل میں گنوا رہے ہیں۔‘‘
سیاحت کے بزنس میں سرمایہ لگانے والے افراد کا مقامی ایکو سسٹم یعنی موسم، جنگلی حیات، ماحول اور قدرت کے نظام کو نہ سمجھنا بھی ایک مسئلہ ہی ہے، جیسا کہ ہم نے کالام میں دریائے سوات کے بیچوں بیچ کھڑے ہوٹلز کو حالیہ سیلاب میں بہتے دیکھا۔
ایسے ہی راجن شاکیا بھی بتا رہے تھے کہ نیپال کے دور دراز جنگلات اور نیشنل پارکس مثلاً چتون نیشنل پارک میں قدرتی حیات کو دیکھنے کے لیے جیپ کا سفر کیا جاتا ہے، مقامی سرمایہ کاروں کو اس طرف بزنس نظر آیا تو انہوں نے دھڑا دھڑ گروپس جنگل میں لے جانے شروع کردیے، اب وہاں سیاح تو نظر آتے ہیں قدرتی حیات وہاں سے بھاگ گئی۔
نیپال کی سیاحت میں طویل مدتی سرکاری پالیسی اور پرائیوٹ سیکٹر میں ماحولیات جیسی نزاکتوں کی کم علمی کا رونا کچھ کچھ اپنے ملک جیسا ہی لگا، تو میں نے براہ راست سوال کیا کہ پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری کو کیا مشورہ دیں گے؟
وہ کہنے لگے، '’یوں تو میں پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری کے حوالے سے زیادہ نہیں جانتا مگر اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ماوئنٹین ٹورازم کے حوالے سے، جو غلطیاں ہم نے کیں، پاکستان ان سے سیکھ ضرور سکتا ہے۔‘‘
پاکستان میں اگست کے آخری ہفتے میں آنے والا سیلاب، جہاں اور بہت سے خدشات کو بڑھا رہا ہے، وہیں پاکستان میں سیاحت کے شعبے کو بھی ایک ایسے چیلنج کا سامنا ہے، جس کا شاید انہوں نے پہلے کبھی ہنگامی اور سائنسی بنیاد پر سوچا نہیں تھا۔
وہ چیلنج ہے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا چیلنج۔ سوال یہ ہے کہ اس سیلاب کی تباہی دیکھ لینے کے بعد کیا سیاحت کے لیے پاکستان ماحولیاتی آلودگی کی بڑی قیمت ادا کر سکتا ہے؟
میرے ذاتی خیال سے ہمیں فطرت دوست سیاحت کے نئے انداز اپنانا ہوں گے، نئی جہتوں کی جانب سوچنا ہو گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔