امتحانات کا سیزن ہے۔ کلاس میں طالب علم رمضان اور امتحان کے چکر میں ہی الجھے نظر آتے رہے ہیں۔ لیکن پچھلے ہفتے سیاسی قلابازیوں کی ہلچل کلاس تک بھی پہنچ گئی۔ میرے لیے حیرت کی بات تھی کہ لوئر سیکنڈری کے وہ طالب علم جو صدر پاکستان کا نام تک ٹھیک سے نہیں بتا پاتے، وہ پاکستان کی سیاست اور تحریک عدم اعتماد پر زور و شور سے بحث کرنے میں مشغول تھے۔ باقی تمام عملہ بھی وقتاً فوقتاً ایک دوسرے سے الجھتا رہا۔ کلاس کا ماحول پرسکون کرنے کے لیے بچوں کو سختی سے ڈپٹنا پڑا۔ ورنہ خدشہ تھا کہ یہ طلباء بھی آپس میں ویسے ہی لڑپڑتے جیسا کہ پچھلے دونوں ایک ہوٹل میں لڑائی کا واقعہ پیش آیا۔
پاکستان کے سیاسی سرکس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کو یہ الفاظ سخت لگیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بہت ہی مختصر عرصہ میں یہ سرکس شروع ہوچکا تھا جو آج تک اسی ڈگر پر چل رہا ہے۔ اس سرکس سے محظوظ ہونے والے دوسروں کو بھی زبردستی اس سے لطف اندوز ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ہم سب نے حالیہ سیاسی بحران میں یقیناً اس صورت حال کا سامنا کیا ہوگا کہ ہمارے فون سیاسی ٹائپ پیغامات سے بھرتے رہے۔ کیونکہ ہمارے جاننے والے اپنی سیاسی پسند ناپسند کو ہم پر تھوپنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا ہو یا واٹس اپ کے پرائیوٹ گروپس، بحث کا ایک نا تھمنے والا طوفانِ بدتمیزی ہمارے ذہنوں کو مسلسل آلودہ کررہا ہے۔ کوئی عمران خان کی حکومت کو گرانے میں بیرونی سازش کے عمل دخل پر روشنی ڈال رہا ہے، تو کوئی مراسلے کی کہانی کو ان کی سیاسی چالیں قرار دے رہا ہے۔ کسی کے خیال میں پاکستان سے بالآخر عمران خان کی نحوست کا خاتمہ ہوا۔ پرائیویٹ گروپس کے وہ ممبران جو کہ عرصہ دراز سے خاموش ممبر کی حیثیت سے موجود تھے بحث میں نا صرف حصہ لیتے نظر آرہے ہیں بلکہ اپنی تربیت کا بھی پتہ دے رہے ہیں۔
آج کل آپ چاہے اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھے ہوں یا دوستوں کی محفل میں، ساتھ کام کرنے والے ہوں یا پڑوسی ، ہر جگہ ہر محفل میں ایک ہی طرح کی گفتگو سنائی دے رہی ہے۔ کوئی بتائے گا کہ کس نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا کہا، تو دوسرا اندر کی خبر دے گا کہ فلاں اس کے پاس اس لیے گیا۔ پھر تھوڑی گرماگرمی شروع ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے حق میں زبان بکف میدان میں اتر آتا ہے۔ تاہم پس پردہ حقائق سے کوئی بھی واقف نہیں ہوتا اور نہ ہی جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ بلکہ یہ بات تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہوتا ہے کہ حقیقت کچھ اور بھی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ سیاسی نیم خواندہ سماج صرف کامل اطاعت جانتا ہے۔ بطور معاشرہ ہم صرف نفرت اور عقیدت کے جذبات سے واقف ہیں۔ دلیل یا حق کی تلاش کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کیونکہ سچ کی تلاش میں تو محنت لگتی ہے۔ اور ویسے بھی ہم تو صرف انا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جس پارٹی کے ہم سپورٹر ہیں اس کا ہر گناہ معاف ہے۔ دوسرے کا دامن داغ دار ہے۔ اس انا کی جنگ میں ہم اپنے رشتہ داروں دوستوں یہاں تک کہ بہن بھائیوں سے بھی الجھ بیٹھتے ہیں۔ کیا یہ سیاستدان اس قابل ہیں کہ ہم ان کے لیے اپنے رشتے داؤ پر لگا دیں؟ یہاں دودھ کا دھلا کوئی بھی نہیں لیکن ہماری نظر میں اپنی سیاسی پارٹی کا قائد فرشتہ ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں ایک افطار پارٹی میں شرکت کا موقع ملا جہاں باقاعدہ یہ اعلان کیا گیا کہ آج کے دن سیاسی بحث کرنا منع ہے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ ہی دیر بعد دو سہیلیاں برسوں کےتعلقات بھلا کر ایک دوسرے کو پٹوارن اور یوتھیا کے خطاب سے نواز رہی تھیں۔ بلکہ کچھ گھروں میں ایسا ماحول بھی دیکھنے کو ملا کہ میاں بیوی آپس میں الجھ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو پٹواری یا پٹوارن اور یوتھیا جیسے القابات سے نواز رہے ہیں۔ گھر میں امن قائم رکھنے کے لیے میاں بیوی اپنے اپنے فون میں سر دیئے بیٹھے ہیں۔ ایک دوسرے کو کسی اہم خبر سے آگاہ کرتے ہوئے اگر سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ معاملہ اس وجہ سے پیش آیا تو سمجھنے کے بجائے دوسرا فریق اسے اپنی توہین تصور کرتے ہوئے فوراً نتھنے پھلا لیتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ احباب نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات جاری کر دیے ہیں کہ اگر آپ ہمارے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے تو بخوشی ہمیں ان فالو کر دیں۔ یعنی اگر دوسرا آپ سے مختلف رائے رکھتا ہے تو اسے آپ سے بات کرنے یا کوئی تعلق رکھنے کا کوئی حق نہیں۔
میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہوں یا نہیں، یہ جمہوریت کی فتح تھی یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ہمیں موجودہ صورت حال کے بارے میں ضرور معلوم ہونا چاہیے۔ اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرنا چاہیے۔ ایک صحت مند معاشرے میں مثبت بحث کرنے اور سوالات اٹھانے سے بہت سی چیزیں واضح ہوتی ہیں۔ لیکن اگر سوالات دلیل سے عاری ہوں اور بحث برائے بحث میں صرف آواز اونچی کرکے جیتنے کی کوشش کی جائے تو ایسے رویئے ایک بیمار معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ بے ہودہ قسم کے میمز بنا کر ایک دوسرے کا مذاق اڑانا اور واہیات قسم کے طنز کرنا باشعور لوگوں کا طریقہ نہیں ہے۔ یہاں ابھی آپ اپنی رائے دیں اور پھر دیکھیں کہ لوگ کیسے توپ اور گولے داغنا شروع کردیں گے اور بات دیکھتے ہی دیکھتے گالم گلوچ تک پہنچ جائے گی۔ ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے کی صورت میں دوسرے کی رائے کو احترام دینا تہذیب یافتہ اور باشعور قوموں کا شیوہ رہا ہے۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنا سیکھیں تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ سسٹم کو تبدیل کرنا بے شک آپ کے اختیار میں نہیں لیکن خود کو بدل لینا تو آپ کے اختیار میں ہے۔
افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ کسی بھی بات کو عقل اور حقائق کی روشنی میں پرکھنے کے بجائے جذبات سے کام لیتے ہوئے آخری حد تک چلے جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ اس قوم کے جذبات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کا حصول کیا گیا ہے۔ جذبات کے ریلے میں بہہ کر دشمن کے ہاتھوں کھلونا بنتے ہیں۔ کیا آج دشمن ہمارے جذبات کو استعمال کرکے ہمیں تباہ نہیں کرسکتا؟ شاید نہیں، کیونکہ ہم اپنی تباہی کے لیے خود ہی کافی ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔