سیلاب: کیا عالمی برادری پاکستان کے نقصان کی تلافی کرے گی؟
20 ستمبر 2022پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن نے بھی کہا ہے کہ کم از کم تین کروڑ افراد کو متاثر کرنے والے تباہ کن سیلاب کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہ اس مطالبے کا حامی ہے کہ عالمی برادری پاکستان کو فوری طور پر ہرجانہ ادا کرے، خاص طور پر وہ ممالک جو زيادہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتے ہیں کیونکہ وہ اِس ماحولیاتی بحران کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔
پاکستان:صحت کے مسائل بحران کی صورت اختیار کرنے کے دہانے پر؟
کمیشن کے مطابق پاکستان ایک ایسی آفت کی لپیٹ میں ہے جس سے بچاؤ ممکن تھا اور اِس سے بھی اہم بات کہ جس میں اِس کا اپنا کوئی قصور نہیں۔ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق، تاریخی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف 0.4 فیصد رہا ہے۔ اِس کے باوجود، یہ دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے اعتبار سے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ عدمِ توازن اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تمام ممالک کو یکجا ہونا چاہیے اور نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کا حل طے کرنا چاہیے، بلکہ ماحولیاتی انصاف کے حولے ایسے اقدامات بھی کرنا ہوں گے جو مساوات اور جوابدہی کے اصولوں کو سرِفہرست رکھیں۔
سیلاب میں کتنا نقصان ہوا؟
پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کے حتمی نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے متعدد سروے جاری ہیں لیکن اب تک کی رپورٹس کے مطابق اس سیلاب سے سوا تین کروڑ کے لگ بھگ لوگ متاثر ہوئے ہیں، اس سیلاب کی وجہ سے پندرہ سوسے زائد پاکستانی اپنی جانیں ہار چکے ہیں۔جبکہ سیلابی حادثات میں زخمیوں کی تعداد تیرہ ہزار کے قریب بتائی جا رہی ہے۔ اس سیلاب میں بارہ ہزار سات سو کلو میٹر سڑکیں تباہ ہو گئیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ سیلاب جہاں کھڑی فصلوں کو بہا لے گیا وہاں نو لاکھ چھتیس ہزار مویشی اور دیگر جانور بھی اس کی نذر ہوگئے۔ سیلاب کی وجہ سے مکمل یا جزوی طور پر متاثر ہونے والے گھروں کی تعداد کوئی اٹھارہ لاکھ سے زائد ہے۔ چھ لاکھ لوگ ریلیف کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ سیلاب سے بچ رہنے والے پانچ ہزار پانچ سو اسکولوں میں بھی سلاب زدگان پناہ گزین ہیں۔
سیلابی تباہی کے بعد خوراک کی قلت کا خطرہ ہے، شہباز شریف
اس سیلاب کی زد میں آکر بڑی تعداد میں تعلیمی ادارے، ہسپتال اور پل بھی تباہ ہو گئے ہیں۔ اگرچہ بارشیں رک چکی ہیں لیکن بہت سے علاقے ابھی بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
عالمی برادری نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے
ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں عالمی برادری نے مغربی ممالک کی وجہ سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی کثافتوں سے مشرقی ممالک کے بچانے کے لئے اقدامات کرنے کے وعدے کئے تھے۔
اسی طرح موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ممکنہ طور پرسب سے زیادہ متاثر ہونے والے بیس ملکوں کی امداد کے لئے ایک سو ارب ڈالر مختص کرنے کی بات بھی کی گئی تھی لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ اسی طرح کاربن پیدا کرنے والے ملکوں پر کاربن ٹیکس لگانے کی بات بھی ہو رہی ہے لیکن اس ضمن میں بھی کوئی واضح پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ان کے بقول موسمی حدت میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے پانچ سو سے زائد گلیشئیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ مگر پاکستان کے دو ہمسائے بھارت اور چین بھی کاربن پھیلانے والے ملکوں میں شامل ہیں۔
پاکستانی حکومت کی بے بسی
امتیاز عالم کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف عالمی مدد کے حصول کے لئے اپنا کیس بہت حکمت اور محنت کے ساتھ تیار کرنا چاہیئے۔ ان کے بقول صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کا وزیراعظم سیلاب زدگان کے لئے بیرونی دنیا سے مدد مانگتا ہے دوسری طرف عمران خان ان کے خلاف مظاہرے کرتا ہے اور دنیا کو بتاتا ہے کہ یہ چور ہیں۔ اس سے عالمی سطح پر جو میسیج جا تا ہے۔اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے ایک شفاف نظام تیار کر لیا ہے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کسی کی مداخلت کے بغیر متاثرین تک پیسے پہنچنا بھی شروع ہو گئے ہیں۔
عالمی برادری کی طرف سے سیلابی نقصانات کی تلافی کے کتنے امکانات ہیں؟
پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ پاکستان کو سیلاب زدگان کی مدد کے لئے روٹین کی امداد تو مل جائے گی لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ عالمی برادری پاکستان کے تمام نقصانات کی تلافی کرے یا اس کا ہرجانہ ادا کرے۔ ان کے بقول اس سے پہلے ہمیں کوئی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں کسی امیر ملک نے ایسا کیا ہو۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا عالمی عدالت انصاف سمیت عالمی سطح پر پاکستان کوئی قانونی چارہ جوئی کر سکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ اصل مئسلہ یہ ہے کہ یہ کیسے ثابت کیا جائے گا کہ فلاں ملک کی آلودگی پاکستان میں اس حد تک اثرانداز ہو کر اتنے سیلاب کا باعث بنی ہے۔
ڈاکٹر عسکری کے مطابق اس سے پہلے بھی ترقی پذیر ملکوں کی طرف سے ایسے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک اس مسئلے کا پائیدار حل یہی ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے باہمی طور پر کسی سمجھوتے پر راضی ہو جائیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی آلودگیوں کے خاتمے کے لئے موثر کوششیں کی جائیں۔
کیا پاکستانی حکومت سیلابی نقصانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے؟
اس سوال کے جواب میں امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں سیلاب کی طرح کے نقصانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔ اقوام متحدہ اور یورپین یونین کی نگرانی میں نقصانات کا سروے ہو رہا ہے۔ عالمی ادارے اور امدادی ایجنسیاں خود فیلڈ میں سیلابی تباہی کا جائزہ لے کر نقصانات کی تفصیل مرتب کر رہی ہیں۔ جو گھر گرے ہیں جو سڑکیں تباہ ہوئی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ اب تو سیٹلائٹ کے ذریعے بھی سیلابی پانی اور اس کے نقصانات کی تصدیق ہو رہی ہے۔ گوگل سروے بھی دستیاب ہے، اس لئے پاکستان پر اس طرح کا الزام لگانا کہ یہ سیلاب کی آڑ میں زیادہ امداد کا متمنی ہے، بہت زیادتی کی بات ہے۔
امتیاز عالم کہتے ہیں کہ ابھی عالمی ادارے پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے کےلئے سروے کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے بقول ابھی مغربی ملکوں کی زیادہ تر توجہ یوکرین جنگ کی طرف ہے۔
پاکستانی عوام مشکل میں لیکن امداد ناکافی
اگرچہ دنیا کے کئی ملکوں کی طرف سے پاکستان کے لئے امدادی سامان آنا شروع ہوگیا ہے لیکن سیلاب سے ہونے والی تباہی اور نقصانات کے مقابلے میں یہ امداد بہت ہی ناکافی ہے۔ یاد رہے مہنگائی کی ریکارڈ بلند شرحوں اور معاشی بحرانوں کی بدولت پہلے ہی نقدی کی قلّت کے شکار، پاکستان میں کم آمدنی والے طبقے پورے ملک میں آنے والے غیرمعمولی سیلاب کے باعث تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں- سیلاب کی وجہ سے جن لوگوں کو فوری مدد کی ضرورت ہے ان میں عمر رسیدہ افراد، بیمار خواتین اور کم سن بچوں کی بھی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر اکثر ایسے مناظر دکھائے جاتے ہیں جن میں لوگ دوائیوں اور دو وقت کی روٹی کے لئے پریشانی کے شکار نظر آتے ہیں۔
پاکستان کو کیا کرنا چاہیئے؟
ماحولیاتی امور پر کام کرنے والی ایک پاکستانی صحافی عافیہ سلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آنے والے پاکستان سری لنکا، فلپائن، اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں کو مل کر آواز اٹھانی چاہئے ۔ ان کے مطابق موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے تباہ ہونے والے غریب ملکوں کی مدد کے لئے ایک عالمی میکانزم بنایا جانا چاہیئے اور اس مقصد کے لئے ایک عالمی کنونشن پر سب ملکوں کو دستخط کرنے چاہیئں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا نشانہ بننے والے غریب ملکوں کو نہ صرف مالی مدد ملنی چاہیئے بلکہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے ذریعے انہیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ مضبوط انفراسٹراکچر بنا کر موسمی آفات کا بہتر مقابلہ کر سکیں۔
پاکستان کے سیلاب متاثرین سے مودی کا اظہار یکجہتی اور امداد پہنچانے پر غور
ان کے مطابق اس حوالے سے عالمی سطح پر بیک چینل بات چیت جاری ہے۔ ان کے بقول بہت پریشان کن بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں میں نا قابل پیشن گوئی حالات دیکھنے میں آ رہے ہیں کوئی نہیں جانتا تھا کہ سیلابی تباہی کوہ سلیمان کا رخ کر لے گی۔ اگر عالمی برادری غریب ملکوں کی مدد کو نہ آئی تو حالات بہت خراب ہو جائیں گے۔
تنویر شہزاد، لاہور