سیلاب کے متاثرین کی مدد کی رفتار بدستور سست
28 ستمبر 2010منگل کے روز سیلاب زدگان کی امداد میں مصروف مختلف امدادی ایجنسیوں کے نمائندوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ مختلف علاقوں میں لوگوں کو عارضی رہائشوں کی فراہمی کے حوالے سے صرف بیس فیصد ضروریات پوری ہو سکی ہیں جبکہ اسی دوران دو لاکھ افراد میں ملیریا کے کیسز کی بھی تصدیق ہو چکی ہے۔
مہاجرت کی بین الاقوامی تنظیم آئی او ایم کے نمائندہ کرس لومز کے مطابق آنے والے دنوں میں موسم سرما کے آغاز کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ ضرورت مند افراد کو شیلٹر کی فراہمی میں ترجیح دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال تشویشناک ہے، خاص طور پر کشمیر، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان جیسے سرد علاقوں میں۔ ایسی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو متاثرین کی ضروریات سے مطابقت رکھتی ہو۔
سیلاب زدگان کو صحت کی سہولیات مہیا کرنے میں سرگرم عمل غیر سرکاری برطانوی تنظیم مرلن کے مطابق مختلف سیلاب زدہ علاقوں میں ملیریا کے بائیس لاکھ کیسز متوقع ہیں، جن میں سے چالیس ہزار میں انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں گے۔ مرلن کی طبی مشیر ڈاکٹر احریما ہاشمی نے کہا:’’کھلی فضا میں رہنے والے شخص کو مچھر کسی بھی وقت کاٹ سکتے ہیں لیکن کھلی فضا میں سپرے نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مچھر دانیاں مہیا کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اصل میں ہمیں 14 ملین ڈالر کی کمی کا سامنا تھا، جو کہ اب 7 ملین ڈالر تک ہے۔ ہمیں فوری طور پر 2 ملین ڈالر چاہئیں تاکہ ہم فوراً ان لوگوں کو بچا سکیں۔‘‘
دوسری جانب اقوام متحدہ کی جانب سے متاثرین سیلاب کی امداد کے لئے کی جانے والی دو ارب ڈالر کی اپیل کا اب تک بتیس فیصد موصول ہو سکا ہے۔ امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ اگر تاریخ میں انسانی امداد کی اِس سب سے بڑی اپیل پر بین الاقوامی رد عمل میں تیزی نہ آئی تو انہیں سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیر نو کے کاموں میں شدید مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی