’شامی امن مذاکرات‘ امید، بھروسہ اور خدشات
25 جنوری 2016امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اگلے چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں کے دوران انہیں شامی امن مذاکرات کے بارے میں مطلع کیا جائے گا۔ جان کیری آج کل لاؤس میں ہیں۔ وینتیان میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کیری نے مزید کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں اپنے فرانسیسی، سعودی، روسی اور ترک ہم منصبوں سے بات کی ہے تاکہ ان مذاکرات کے انعقاد کو ممکن بنایا جائے۔
اقوام متحدہ کے زیر انتظام شام میں قیام امن کی کوششیں شروع کی گئیں تھیں اور یہ سلسلہ گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جاری ہے۔ شامی حکومت اور حزب اختلاف کے گروپوں کے نمائندوں نے جنیوا اجلاس میں شریک ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاہم اس امر پر اختلاف پایا جاتاہے کہ آیا مسلح گروپ بھی مذاکرات کی میز پر موجود ہو سکتے۔ اس وجہ سے امن مذاکرات کے ابتدائی اجلاس کی کارروائی شروع ہونے میں تاخیر ہو رہی ہے۔
اسی تناظر میں امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ انہوں نے اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے شام اسٹیفان دے مستورا سے بھی درخواست کی ہے کہ کوشش کی جائے کہ مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی فریقین کے مابین اتفاق رائے موجود ہو۔’’ اگر ضرورت پڑے تو مذاکرات کو ایک دو دن تاخیر سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ شام کا مستقبل تنازعہ سے جڑے فریقوں کے ہاتھوں میں ہے۔‘‘ کیری کے بقول وہ مذاکرات کے نگران تو نہیں ہیں اور یہ ذمہ داری دے مستورا کی ہے لیکن انہیں امید ہے کہ بات چیت ضرور ہو گی۔ دے مستورا آج پیر کو ہی شامی امن اجلاس کی تیاریوں کے بارے میں صحافیوں کو آگاہ کریں گے۔
شام میں خانہ جنگی کو پانچ سال ہونے کو ہیں۔ اس دوران اس ملک میں قیام امن کی کئی کوششیں کی گئیں تاہم کوئی بھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکی۔ اس دوران یہ تنازعہ ڈھائی لاکھ افراد کی جان لے چکا ہے اور ملک سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد کئی ملین میں ہے، جو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔