شامی بچوں کی جبری مشقت، جنسی غلامی میں تبدیل ہوتی ہوئی
11 جون 2016متعدد غیرسرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ بچوں سے جبری مشقت لینے جیسی سرگرمیاں بالآخر ان بچوں کے 'جنسی غلام‘ بنا لیے جانے پر منتج ہوتی ہے۔
شامی شہر حلب سے تعلق رکھنے والا آٹھ سالہ بچہ 'محمد‘ لبنان کی ایک مہاجر بستی میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ وہ کہتا ہے، ''مجھے اسکول جانا چاہیے۔ میرا حق ہے کہ میں تعلیم حاصل کروں، میری شناخت ہو، گھر ہو اور طبی سہولیات مجھے حاصل ہوں۔‘‘
یہ بچہ بڑا ہو کر انسانی حقوق کا وکیل بننا چاہتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ لبنان میں بچوں سے مشقت کرنے والوں کے خلاف جدوجہد کرے۔
ایسی غیرسرکاری تنظیموں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جو یہ کہہ رہی ہیں کہ اب 'جنسی غلامی‘ کا شکار بچے وہی ہیں، جن سے ابتدا میں 'جبری مشقت‘ لی گئی۔
بتایا گیا ہے کہ لبنان میں قائم بقعا کی مہاجربستی میں موجود 80 فیصد شامی بچے ایک ڈالر یومیہ کے لیے کھیتوں میں دن بھر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ ایک ڈالر وہ اپنے اہل خانہ کو دیتے ہیں، جو خیموں کے کرایوں وغیرہ میں صرف کیا جاتا ہے۔ غیرسرکاری تنظیموں کے مطابق یہ 'جدید دور کی غلامی‘ کی ایک شکل ہے۔
لبنانی پالیسی کے مطابق ہر مہاجر کو پانی، بجلی، کرایے اور رہائش ہر شے کا بوجھ خود اٹھانا ہے، تاہم شامی خانہ جنگی کی وجہ سے بے گھر ہونے والے ان لٹے پٹے مہاجروں کے لیے یہ نہایت مشکل عمل ہے۔
محمد کی آنکھیں اس وقت دیکھنے والی تھیں، جب اس آٹھ سالہ بچے سے کہا گیا، ''کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم ایک غلامی میں ہو؟‘‘
اس بچے نے کچھ لمحوں کے لیے اپنی آنکھیں بند کیں، جیسے کچھ نہ سمجھا ہو مگر پھر جیسے سب معلوم ہے کے تاثر سے اس نے آنکھیں کھول کر کہا، ''مجھے میرا کام پسند نہیں۔ میں مستقل میں وکیل بنوں گا اور لوگوں کا دفاع کروں گا اور وہ تمام لوگ جو ان بچوں کو کاموں پر لگا دیتے ہیں، ان سب کا بتا دوں گا کہ وہ ان بچوں کو امدادی مراکز یا اسکولوں میں بھیجیں۔‘‘
شامی سرحد کے قریب واقع لبنانی علاقے اکر میں واقع ایک مہاجر بستی کا دورہ کرنے پر ڈی ڈبلیو کو معلوم ہوا کہ قریبی شامی علاقوں میں اسلامک اسٹیٹ کی وحشیانہ کارروائیاں، اغوا اور جھڑپیں معمول کی بات ہیں اور اس مہاجر بستی میں بھی مسلسل ایک خوف کی فضا ہے۔
محمد کہنا ہے، ''ہمارا باس ہمیں مارتا ہے۔ وہ ہم سے نہایت بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔‘‘
لبنان میں موجود شامی مہاجر لڑکوں کے لیے یہ 'غلامی‘ بھی ایک نعمت ہے کیوں کہ مہاجر بچیوں کا جس طرز کا مستقبل منتظر ہوتا ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔