شامی جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں، پوٹن اور ٹرمپ میں اتفاق رائے
11 نومبر 2017روسی دارالحکومت ماسکو سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق روسی اور امریکی صدور نے یہ بات ویت نام کے شہر ڈانانگ میں ہونے والی ایشیا بحرالکاہل کی اقتصادی تعاون کی تنظیم ایپک (APEC) کی سربراہی کانفرنس کے حاشیے پر اپنے ہفتہ گیارہ نومبر کو جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہی۔
شام نے ملک بھر میں داعش کے خلاف کامیابی کا اعلان کر دیا
شامی مہاجرین نے اسد حکومت کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے کرا دیے
شامی جنگ دیرالزور میں ختم نہیں ہوئی، بشارالاسد
ماسکو میں روسی صدر کے دفتر نے بتایا کہ اس بیان میں صدر پوٹن اور ان کے امریکی ہم منصب ٹرمپ نے اتفاق کیا کہ روس اور امریکا داعش کو مکمل طور پر شکست دینے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کریملن کی طرف سے اس کی ویب سائٹ پر یہ بھی کہا گیا کہ شام کی کئی سالہ خانہ جنگی کا فوجی طاقت کے استعمال سے کوئی حل نہیں نکالا جا سکتا بلکہ اس مقصد کے لیے جنیوا میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس خونریز تنازعے کے تمام فریق اس مکالمت میں حصہ لیں۔
اسی بارے میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے لکھا ہے کہ ولادیمیر پوٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس مشترکہ بیان میں مزید کہا کہ شام کی ریاستی خود مختاری، آزادی اور جغرافیائی سالمیت کا تحفط کیا جانا چاہیے۔
اسی دوران ڈانانگ میں ایپک سربراہی کانفرنس ہی کے موقع پر روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے آج ہفتہ گیارہ نومبر کے روز کہا کہ شام میں قیام امن کے لیے روس کی سرپرستی میں کسی نئی امن کوشش کے لیے ابھی تک کوئی نظام الاوقات ترتیب نہیں دیا گیا۔
اس سلسلے میں قومی مکالمت سے متعلق شامی کانگریس نامی ایک مذاکراتی اجتماع کا انعقاد جنوبی روس کے ایک شہر میں اٹھارہ نومبر کو متوقع تھا تاہم اس کانگریس کو ملتوی کیا جا چکا ہے۔
پورا دیر الزور شامی حکومتی دستوں کے قبضے میں، داعش مزید پسپا
’تباہ کن حالات‘ کے شکار تیرہ ملین شامیوں کو مدد کی اشد ضرورت
داعش کے ٹوٹنے سے القاعدہ کی طاقت میں اضافہ
ویت نام میں ایپک سمٹ کے میزبان شہر ڈانانگ سے موصولہ دیگر رپورٹوں کے مطابق اس کانفرنس کے موقع پر ماہرین کو یہ انتظار بھی تھا کہ آیا وہاں روسی اور امریکی صدور کی ملاقات بھی ہو گی۔
اس حوالے سے پوٹن اور ٹرمپ نے ڈانانگ میں ایک دوسرے کے ساتھ گرمجوشی سے خیرمقدمی جذبات کا اظہار تو کیا تاہم آخری خبریں آنے تک اس بارے میں محض اندازے ہی لگائے جاتے رہے کہ آیا ان دونوں صدور کی ویت نام میں کوئی باقاعدہ باہمی ملاقات بھی عمل میں آئے گی۔ ڈانانگ سمٹ میں پوٹن اور ٹرمپ کا جمعہ دس نومبر کی رات سے ہفتے کے روز قبل از دوپہر تک تین مرتبہ آمنا سامنا ہوا، جس دوران ایک بار تو ان دونوں رہنماؤں نے مل کر ایک تصویر بھی اتروائی۔
ان دونوں سربراہان کی آپس میں اب تک ویت نام میں نہ ہونے والی کسی باہمی ملاقات کے برعکس روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کچھ دیر کے لیے اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن کے ساتھ ایک ملاقات کی، جس کی کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔