1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی جنگ کے نو سال، مصائب و تباہی آج بھی جاری

15 مارچ 2020

آج دنيا کو ايک عالمگير وبا کا سامنا ہے، عالمی سطح پر بے چينی پائی جاتی ہے اور خبروں کا بازار گرم ہے۔ ايسے ميں شامی جنگ کو ياد رکھنا مشکل کام ہے مگر نو برس قبل شروع ہونے والی يہ جنگ آج بھی جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/3ZSIr
Solidaritäts-Kampagne für das syrische Kind Karim
تصویر: picture alliance/dpa/AA/M. Abdullah

پندرہ مارچ 2011ء کے دن جب شامی شہری اپنی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے، انہيں قطعی يہ اندازہ نہيں تھا کہ ان کا يہ احتجاج باقاعدہ جنگ کی شکل اختيار کر لے گا اور اس پيچيدہ جنگ ميں حکومتی فورسز، باغی، جہادی، غير ملکی قوتيں اور کئی مليشياز ايک دوسرے کے خلاف برسرپيکار ہوں گے۔ اس جنگ کو شروع ہوئے نو برس ہو چکے ہيں اور آج سے دسواں سال شروع ہو گيا ہے۔ اس دوران کم از کم 384,000 افراد ہلاک ہوئے، جن ميں سے 116,000 شہری تھے۔ اس مسلح تنازعے کے باعث لگ بھگ گيارہ ملين شامی شہری بے گھر ہو چکے ہيں، جو ميں سے کئی بيرون ملک ميں پناہ گزينوں کے طور پر زندگياں بسر کر رہے ہيں تو لاکھوں اپنے ہی ملک ميں کيمپوں ميں وقت گزار رہے ہيں۔

ہالہ ابراہيم ادلب کے شہر دانا ميں رہتی ہيں۔ ابراہيم کا تعلق حلب سے ہے مگر جب سن 2016 ميں صدر بشار الاسد کی حامی فورسز نے اس شہر پر قبضہ کيا، تو انہيں اپنا سب کچھ چھوڑ کر دانا ميں پناہ لينا پڑی، ''مجھے اپنی يونيورسٹی اور اپنا گھر چھوڑنا پڑ گيا تھا کيونکہ يہ سب بمباری ميں تباہ ہو چکے تھے۔‘‘ ابراہيم کے بقول نو سال کے انقلاب اور جنگ سے انہيں تکليف کے سوا کچھ نہيں ملا۔

ايرانی مليشياز، روسی عسکری معاونت اور لبنانی شيعہ عسکری تنظيم حزب اللہ کی مدد سے شامی صدر بشار الاسد اب ملک کے  لگ بھگ ستر فيصد حصے  پر کنٹرول بحال کر چکے ہيں۔ ان دنوں اسد فورسز نے ملک کے شمال مغربی حصے ميں کارروائياں جاری رکھی ہوئی ہيں۔

ادلب ميں حکومتی آپريشن کے باعث بے گھر ہونے والے سينکڑوں لوگ کيمپوں، مساجد، کھلے ميدانوں، اسکولوں اور زير تعمير عمارات ميں گزر بسر کرنے پر مجبور ہيں۔ سيہام عبس اپنے سات بچوں کے ہمراہ ادلب ميں بردا قلی کے مقام پر ايک کيمپ ميں گزر بسر کر رہی ہيں،''ميں پچاس برس کی ہوں۔ ايسی تکليف ميں نے اپنی پوری زندگی ميں کبھی نہيں ديکھی۔‘‘

اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل انٹونيو گوٹيرش نے اسی ہفتے اپنے ايک ٹوئٹر پيغام ميں لکھا تھا، ''شام ميں ايک دہائی سے جاری لڑائی سے تباہی اور مصائب کے سوا کچھ حاصل نہيں ہوا۔‘‘ انہوں نے مزيد لکھا کہ شامی تنازعے کا کوئی فوجی حل نہيں اور اس ضمن ميں سفارت کاری کو موقع دينا چاہيے۔ تاہم ايسی کئی کوششيں بھی ناکام ہو چکی ہيں۔

اقوام متحدہ نے دو برس يہ اندازہ لگايا تھا کہ شامی جنگ اب تک چار سو بلين ڈالر ماليت کے مالی نقصانات کا سبب بنی ہے۔ جانی نقصان کا اندازہ تو ممکن ہی نہيں۔

ع س / ع ب، نيوز ايجنسياں