شامی حکومت پر بين الاقوامی دباؤ ميں اضافہ
8 اگست 2011شامی صدر بشار الاسد پرعالمی رہنماؤں کی اپيلوں کا کوئی اثرنظر نہيں آتا۔ وہ عوام کے خلاف وحشيانہ طاقت کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہيں۔ کل ترک وزير خارجہ ايک اور کوشش کے ليے دمشق جارہے ہيں۔ پچھلے برسوں کے دوران شام سے ترکی کے تعلقات اچھے رہے ہيں، ليکن ترک وزير اعظم ایردوآن نے ويک اينڈ پر کہا کہ اب شام کے ساتھ ترکی کے صبر کا پيمانہ لبريز ہو چکا ہے۔ دوسرے عالمی رہنما بھی اسی قسم کے بيانات دے چکے ہيں۔
شام کے حقوق انسانی کے حامی مصعب عزاوی نے کہا کہ ہر قسم کی سياسی مدد شامی عوام کے ليے اچھی ہے، ليکن بنيادی طور پر وہ اکيلے ہی اس راہ بڑھتے رہنے کا فيصلہ کر چکے ہيں، طاقت اور مزاحمت کے ساتھ۔
شام ميں احتجاجات کے مراکز حما اور حمص پر سکيورٹی فورسز ٹينکوں کی مدد سے حملہ آور ہیں۔ دمشق کے مضافاتی علاقوں سے بھی عينی شاہدين نے احتجاجات اور ہلاکتوں کی خبريں دی ہيں، جن کی تصديق نہيں ہو سکی ہے۔ صحافيوں کو ابھی تک ان علاقوں ميں جانے کی اجازت نہيں۔ انسانی حقوق کے حامی مصعب عزاوی کا کہنا ہے کہ وہ مقامی لوگوں سے ٹيليفون پر رابطہ قائم رکھے ہوئے ہيں: ’’حکومت کو خوف ہے کہ يہ شہر اُس کے قابو سے نکل سکتے ہيں۔ وہاں حکومت کی شديد مخالفت پائی جاتی ہے۔ حکومت نے مزاحمتی تحريک کی حمايت کرنے والے بعض قبائلی سرداروں کوبھی گرفتار کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
حکومت نے سال کے آخر ميں انتخابات کا اعلان کيا ہے ليکن اپوزيشن اسے ايک چال قرار دے رہی ہے۔ شامی آئين کے مطابق چاہے انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں، حکمران بعث پارٹی کو پارليمنٹ ميں ہميشہ قطعی اکثريت حاصل رہے گی۔ صورتحال انتہائی خرب ہے اور شام ميں خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ اپوزيشن کے ايک رہنما عماد الدين رشيد نے کہا کہ حکومت اپنا جواز کھو چکی ہے۔ اُس نے مظاہرين ميں شامل بچوں اور نوجوانوں تک کو ہلاک کرنے سے گريز نہيں کيا ہے۔
شام کے ہمسايہ ملک اردن نے بھی شامی حکومت سے اصلاحات کا مطالبہ کيا ہے ليکن اس نے کہا ہے کہ وہ شام کے داخلی معاملات ميں کسی قسم کی مداخلت نہيں کرے گا۔
رپورٹ: جينز ويننگ، عمان/ شہاب احمد صديقی
ادارت: شادی خان سیف