شامی مذاکرات: کون سا گروپ اپوزیشن، کون سا دہشت گرد؟
12 نومبر 2015گزشتہ تقریباﹰ چار سال سے شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کا حل تلاش کرنے کے لیے آئندہ ویک اینڈ پر دنیا کے بیس ممالک کے رہنما اور دیگر ادارے ویانا میں جمع ہو رہے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ شام کے مستقبل کے حوالے سے کوئی ایک ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے، جس کے تحت وہاں امن قائم ہو سکے۔ بتایا گیا ہے کہ سفارتکاروں کی سطح پر مذاکرات کا آغاز قبل از وقت یعنی آج جمعرات ہی سے شروع ہو جائے گا۔
قبل ازیں مغربی عہدیداروں نے اس روسی اصلاحاتی منصوبے کو مسترد کر دیا تھا، جس میں سیاسی اصلاحات کی بات کی گئی تھی۔ مغربی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ روسی اصلاحاتی منصوبے میں یہ بالکل بھی واضح نہیں ہے کہ صدر اسد کا مستقبل کیا ہو گا؟ شام کے بحران کے حل کے لیے کی جانے والی سابقہ کوششیں بھی اس وجہ سے ناکام ہو چکی ہیں کہ صدر اسد کے اقتدار میں رہنے یا نہ رہنے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا تھا۔ شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے اب تک وہاں دو لاکھ پچاس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بے گھر ہونے والے شامیوں کی تعداد ملینز میں ہے۔ مغرب اور خلیجی ممالک کا اصرار ہے کہ صدر اسد کو اقتدار سے بے دخل ہو جانا چاہیے جبکہ روس اور ایران صدر اسد کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
شام کا مسئلہ حل کرنے کے لیے سفارتی کوششیں اس وقت سے تیز تر ہو گئیں، جب سے روس نے شام میں فضائی حملوں کا آغاز کر رکھا ہے اور شامی مہاجرین زیادہ سے زیادہ تعداد میں یورپ پہنچ رہے ہیں۔
بیروت میں ایک مغربی ذریع کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں اپوزیشن کے نمائندوں پر مشتمل ایک وسیع گروپ تشکیل دیا جائے گا، جو اسد کے ساتھ سیاسی تبدیلی پر بات کر سکے۔ اس عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’ہر ملک اپنا منتخب کردہ نام دے سکتا ہے۔ آخر میں بیس سے پچیس نمائندوں پر مشتمل دو گروپ تشکیل دیے جائیں گے۔ ان میں سے ایک سیاسی اصلاحات کے لیے کام کرے گا اور ایک سکیورٹی اصلاحات کے لیے۔‘‘
ایک مغربی سفارت کار کا کہنا تھا کہ شام میں اسد مخالف تمام گروپوں کی فہرست تیار کی جا رہی ہے اور ان میں سے بعض کو ’دہشت گرد‘ گروپ قرار دیا جائے گا۔