شامی مہاجرین کو اُردن کی سرحدوں پر رکاوٹ کا سامنا: ایمنسٹی انٹرنیشنل
31 اکتوبر 2013خاص طور سے ایسے ممالک کی جو شامی مہاجرین کی آمد کو روکنے کے لیے سخت سرحدی پابندیاں لگائے بیٹھے ہیں۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک تازہ رپورٹ میں شامی مہاجرین کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پناہ کے متلاشی شامی باشندوں کو اکثر ہمسائیہ ممالک کی سرحدوں تک پہنچ کر لوٹنا پڑ رہا ہے کیونکہ وہاں سرحد پار کرنے پر سخت پابندی عائد ہے۔ شامی پناہ گزینوں کے لیے سب سے دشوار صورتحال اُردن کی سرحدوں کی ہے۔
چھوٹی سی صحرائی بادشاہت اُردن نے اس وقت پانچ لاکھ شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔ ان میں سے ایک لاکھ بیس ہزار سرحد کے ایک قریبی علاقے میں قائم زعتری کیمپ میں رکھے گئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی شاخ کے ڈائریکٹر فلپ لوتھر نے ایک بیان میں کہا،" یہ امر ناقابل قبول ہے کہ پناہ کے متلاشی شامی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد، جن میں خواتین اور بچوں والے خاندان بھی شامل ہیں، کو اپنے ہاں پناہ دینے کی بجائے پڑوسی ممالک اس سے انکار کر رہے ہیں" ۔
2011ء میں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت اور اسد کے مخالفین پر ہونے والے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ پندرہ ہزار جانیں ضائع ہو چُکی ہیں اور دو ملین سے زائد شامی باشندے گھر بار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو چُکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مہاجرین نے اُردن،لبنان، ترکی، عراق اور مصر کا رُخ کیا ہے۔
دریں اثناء اقوام متحدہ نے انتباہ کیا ہے کہ سال رواں کے اختتام تک شامی مہاجرین کی کُل تعداد بڑھ کر ساڑھے تین ملین ہو جائے گی جبکہ قریب سات ملین شامی باشندے اپنے ملک میں بیرونی امداد کے متمنی ہوں گے۔ اُردن کی انتظامیہ کی طرف سے بارہا بیانات میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اُس نے شامی مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں کُھول رکھی ہیں تاہم لندن میں قائم ادارے کا کہنا ہے کہ اس بارے میں اُس کی طرف سے کروائی جانے والی تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو اردن کی سرحدوں میں داخل ہونے نہیں دیا جا رہا ہے۔ ان میں شام سے تعلق رکھنے والے فلسطینی پناہ گزین، ایسے افراد جن کے پاس شناختی کارڈز موجود نہیں ہیں اور شام میں رہنے والے عراقی باشندے بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسے افراد جو تنہا ہیں اور جن کی اُردن میں کوئی خاندانی وابستگی نہیں ہے، کو بھی اُردن کی سرحدوں سے نامراد لوٹنا پڑ رہا ہے۔
اُردن متعدد بار عالمی امداد کی اپیل کر چُکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شامی مہاجرین کا اس کی سرحدوں کی طرف بڑھتا ہوا سیلاب اس کی اقتصادیات پر بڑا بوجھ ہے۔ اس کی پانی اور بجلی کی سپلائی کے ساتھ ساتھ تعلیم اور رہائش کی سہولیات بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بے روز گار اُردنی باشندوں کو نوکریوں کے حصول میں شامی باشندوں کے ساتھ سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ تاہم اُردن حکام نے ایمنسٹی انٹر نیشنل سے کہا ہے کہ وہ کسی کو بھی شام واپس نہیں بھیجیں گے۔