1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی مہاجر فنکار کی توجہ، دہشت گردی کے متاثرين پر

عاصم سليم13 جنوری 2016

شامی پناہ گزين لينا محاميد نے جب ٹيلی وژن پر فرانس ميں نومبر ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی جھلکياں ديکھيں تو اُس کا دل بھر آيا۔ اُسے فرانسیسی متاثرین کے جذبات مناظر اپنی مہاجرت کی کہانی میں بھی دکھائی دی۔

https://p.dw.com/p/1HcWZ
تصویر: Hassan Deveci

اکتاليس سالہ محاميد اِن دنوں فرانسيسی دارالحکومت پیرس ميں تيرہ نومبر کو داعش کی جانب سے کيے جانے والے دہشت گردانہ حملوں ميں ہلاک ہونے والے 130 افراد ميں سے چند کی تصاوير بنانے میں مصروف ہيں۔ لينا محاميد کے مطابق وہ لوگ بھی اُسی مذہبی جنون کے سبب ہلاک ہوئے، جس نے شامی خانہ جنگی کے آغاز ميں اُن کے سولہ سالہ بيٹے کی جان لی تھی۔

اردن کے دارالحکومت عمان ميں اپنے مکان سے بات کرتے ہوئے شامی فنکار بتاتی ہيں، ’’جب يہ فرانسيسی شہری پيرس ميں ہلاک ہوئے تھے، تو ميں نے اُن کا درد محسوس کيا تھا۔‘‘ اُن کے مطابق اُنہوں نے وہ محسوس کيا، جو ہر ماں کسی مجرمانہ فعل کے نتيجے ميں اپنے کسی خاص کو کھو دينے پر کرتی ہے۔ اُنہوں نے مزيد کہا، ’’اُن کے ساتھ پيش آنے والا سانحہ بھی اُن کے دکھ جيسا ہی ہے۔‘‘

لينا نے انٹرنيٹ پر سے متاثرين کی تصويريں نکاليں اور پھر پرنٹ آؤٹ نکال کر پينسل کی مدد سے اُن کے چہروں کی تصاوير بنائيں۔ ايک تصوير ميں بھورے بالوں والی ايک نوجوان لڑکی کھانے کے سامنے بيٹھی ہے۔ ايک اور ميں چشمے والا شخص بڑے اطمينان کے ساتھ مسکرا رہا ہے۔ اور ايک تصوير ميں قريب ايک درجن لوگ کيمرے کی جانب ديکھ کر قہقہہ لگا رہے ہيں۔ اگلے مرحلے ميں يہ فنکار پورٹريٹس ميں رنگ بھرا کرتی ہيں۔ اُن کے کمرے ميں درجنوں تصاوير ديکھی جا سکتی ہيں، کسی ميں کوئی مسخرہ غبارے ليے ہوا ہے تو کسی ميں کوئی شخص پيٹ کے زخم کو چھپا رہا ہے۔ کسی تصوير ميں جنگلات ہيں تو کسی ميں دمشق کے تاريخی ليکن اب تباہ حال مقامات ديکھے جا سکتے ہيں۔

پیرس ميں داعش کی جانب سے کيے جانے والے دہشت گردانہ حملوں ميں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے
پیرس ميں داعش کی جانب سے کيے جانے والے دہشت گردانہ حملوں ميں 130 افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand

لينا اب اپنے تين بچوں کے ہمراہ عمان ميں رہتی ہيں۔ وہ اميد کرتی ہيں کہ اُن کی يہ تصاوير متاثرين کے اہل خانہ کے دلوں کو تسلی و تشفی پہنچا سکیں گی۔ ابھی تک وہ يہ طے نہيں کر پائی ہيں کہ وہ اِن تصاوير کو فرانسیسی حملوں کے ہلاک شدگان کے لواحقین تک کيسے پہنچائيں گی۔ وہ بے ساختہ کہتی ہیں ’’ہمارے بھی شہيد ہيں اور اِن حملوں میں مرنے والے بھی شہيد ہیں، عام شہريوں کا سياست اور ديگر ملکوں کے مفادات کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہوتا۔‘‘

شامی مصور لينا محاميد جلد از جلد اردن چھوڑ دينا چاہتی ہيں کيونکہ اُنہيں وہاں ملازمت کی اجازت نہيں۔ تمام تر حالات و واقعات اور جنگ کے تجربات کے باوجود اُن کے اندر ایک فنکار آج بھی زندہ ہے۔ وہ مانتی ہيں کہ فن ہی کی بدولت جنگ کی تلخ و تاريک حقيقتوں کو آشکارا کیا جا سکتا ہے۔