شامی پناہ گزينوں کی روداد : نہ حال اور نہ ہی کوئی مستقبل
7 اپریل 2016ترک شہر ازمير کی سخت دھوپ ميں ايک سرکاری دفتر کے باہر کھڑی اميرا کافی تھک چکی ہے۔ شام سے تعلق رکھنے والی يہ پناہ گزين ترکی ميں اندراج کی منتظر ہے تاکہ وہاں اسے اور اس کے چار بچوں کو قانونی حيثيت مل سکے اور انہيں تعليم و صحت جيسی بنيادی سہوليات ميسر ہو سکيں۔ اميرا بتاتی ہے، ’’ميں اپنے خاوند کے ساتھ يورپ نہ جا سکی کيونکہ ميرے پاس پيسے نہيں تھے۔ اب سرحديں اور سمندری راستے بند ہو چکے ہيں اور ہمارے پاس يورپ جانے کا کوئی راستہ نہيں۔‘‘ شامی پناہ گزين اميرا اور اس کے ہمراہ تقريباً پچاس ديگر شامی مہاجرين کا دعویٰ ہے کہ اندراج سے لے کر سہوليات کی دستيابی تک انہيں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
اميرا کا مزيد کہنا ہے، ’’اگر کوئی ترک شہری سے شادی کرے تو اسے فوری طور پر شناختی دستاويز مل جاتی ہے تاہم ہم شامی شہريوں کی بات بالکل ہی مختلف ہے۔‘‘ اميرا کا خاوند جرمنی ميں ہے جبکہ ترکی ميں اسے ملازمت کی اجازت نہيں۔ ايسے ميں چار بچوں کو تنہا سنبھالنے والی اميرا شديد مشکلات کی شکار ہے۔ اس کے دو سترہ اور تيرہ سالہ بيٹوں کو مقامی ٹيکسٹائل فيکٹريوں ميں کبھی کبھار کام مل جاتا ہے، جس سے ان کی ماہانہ آمدنی دو سو يورو کے برابر بنتی ہے۔ تاہم پانچ افراد پر مشتمل اس خاندان کے ليے ازمير کے نواح ميں ايک غريب علاقے ميں بھی اتنے پيسوں ميں گزر بسر کافی مشکل ہے۔
اگرچہ اب موسم دوبارہ بہتر ہو رہا ہے اور انسانی اسمگلروں کا مصروف ترين وقت شروع ہونے کو ہے تاہم اميرا اور اس کی طرح کے ديگر ہزارہا پناہ گزين يورپ ميں ہونے والی پيش رفت کے سبب وہاں ہجرت کرنے کے حوالے سے خدشات کا شکار ہيں۔ مقدونيہ کی جانب سے سرحد کی بندش اور مقامی حکام کی کارروائيوں کے نتيجے ميں ’چھوٹا شام‘ کہلانے والے ترک علاقے بسمانے اسکوائر پر کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔ کبھی يہ علاقہ انسانی اسمگلروں کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ اسی علاقے ميں ايک دکان کا مالک حسام علی بتاتا ہے، ’’گزشتہ سال اسی وقت ميں ايک دن ميں ايک سو سے زائد لائف جيکٹس فروخت کيا کرتا تھا۔ جب کہ اس وقت ميں نے پچھلے دو ہفتوں سے ايک بھی جيکٹ نہيں بيچی۔‘‘ ان حالات ميں بہت سے کاروبار بھی متاثر ہو رہے ہيں۔ وہ دکانيں جہاں کسی وقت ربڑ کی کشتياں فروخت ہوا کرتی تھيں، ان کا بھی آج کل يہی حال ہے۔
اگرچہ مارچ ميں طے پانے والے يورپی يونين اور ترکی کے معاہدے کے نتيجے ميں ترکی ميں موجود مہاجرين نے يورپ پہنچنے کی کوششيں مکمل طور پر ترک نہيں کی ہيں تاہم اب مجموعی صورتحال کافی مختلف ہے۔ پينتيس سالہ مصطفی پچھلے تين برس سے ترکی ميں مقيم ہے ليکن وہ آج تک اندراج نہيں کرا سکا۔ وہ کہتا ہے، ’’اب ہم يورپ بھی نہيں جا سکتے۔‘‘ اس سے جب يہ دريافت کيا گياکہ وہ اب کيا کرے گا، تو اس نے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہا کہ شايد اب اسے تير کر يورپ پہنچنا پڑے گا۔