شامی گاؤں کے مہاجر اپنے گھر واپسی کے منتظر
16 فروری 2017مٹی اور گارے کے بنے یہ دیہی مکانات شامی فورسز اور شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے بری طرح سے متاثر ہوئے جب کہ ایک طویل عرصہ ہوا یہاں کے مکین یہ دیہات چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
مگر ان دیہات کو چھوڑنے پر مجبور ہونے والے مہاجرین کو امید ہے کہ ایک روز وہ دوبارہ اپنے گاؤں جا سکیں گے۔ قلایا نامی گاؤں کے ایک فرد کا کہنا ہے کہ ایک دن ان کا علاقہ دوبارہ سے آباد ہو جائے گا۔ اس چالیس سالہ شخص ابو محمد نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ’’ہم بھیڑین بکریاں پالتے تھے۔ ہماری زمین تھی۔ گھر چھوڑنے سے قبل ہم نے سب کچھ بیچ دیا۔ مگر خدا کی قسم ہم ایک روز دوبارہ گھر لوٹیں گے۔ یہ ہمارا گاؤں ہے اور ہم اسے مستقل نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
اپنے مٹی کے گھروں کی خصوصی اشکال کی وجہ سے یہ دیہات مشہور تھے اور بہت سے غیر ملکی سیاہ ان دیہات کو دیکھنے کے لیے یہاں آیا کرتے تھے، تاہم شامی تنازعہ اس علاقے کی خوب صورتی کو بھی گہنا گیا۔
شامی شہروں کی تباہی اور وہاں بسنے والے افراد کی ہلاکتوں کی بابت تو اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں، مگر شامی دیہات کو اس سے زیادہ تباہی کے باوجود خبروں میں جگہ تک نہیں ملتی۔ روئٹرز کے مطابق ایسے دیہاتی جن کی زندگیوں کو دارومدار مال مویشیوں اور زمین کی کاشت پر تھا، وہ نئے ماحول میں گھلتے ملتے دکھائی نہیں دیتے۔
دسمبر میں شامی فورسز نے حلب میں باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی علاقے کا قبضہ دوبارہ حاصل کیا تھا، جب کہ اب بھی مشرق کی جانب متعدد مقامات پر سرکاری فورسز اور باغیوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
جبرین کے صنعتی علاقے میں ان دیہات سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، جب کہ یہاں کی کچی گلیوں میں بچے مرغیوں کے پیچھے دوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان افراد کو امید ہے کہ یہ اسلامک اسٹیٹ کے زیرقبضہ علاقوں کا کنٹرول واپس لے لیا جائے گا اور وہ واپس اپنے گھروں میں دوبارہ سے وہی زندگی شروع کر سکیں گے، جو اس خانہ جنگی سے قبل کی تھی۔