شام: روسی فضائی حملوں میں اب تک ’دس ہزار سے زائد‘ ہلاکتیں
30 ستمبر 2016برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری کے مطابق روسی حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے تقریباً چار ہزار عام شہری تھے، جن میں بچوں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اس ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روسی فضائی حملوں میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے اٹھائیس سو جنگجو بھی مارے گئے جبکہ ہلاک ہونے والے اسد مخالف باغیوں کی تعداد بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں بمباری کے دوران شہری علاقوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے روس پر تھرمائیٹ بم استعمال کرنے کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ تھرمائیٹ بم میں المونیم پاؤڈر اور آئرن آکسائیڈ ملا ہوا ہوتا ہے، جس سے جسم جل جاتا ہے۔
روس نے تیس ستمبر 2015ء کو شام میں فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا تاکہ اپنے پرانے حلیف اور شامی صدر بشارالاسد کے خلاف جاری مسلح تحریک کو کچلنے میں اس کی مدد کر سکے۔ تاہم روس کا موقف ہے کہ اس کی ان کارروائیوں کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔
اس تناظر میں روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا سخارووا نے ایک بیان میں کہا، ’’آپ جتنی قیاس آرائیاں کرنا چاہتے ہیں، کر لیں۔ ہمارا ہدف بین الاقوامی دہشت گردی کا خاتمہ ہی ہے۔‘‘ ابھی ایک دن قبل ہی روسی حکام نے امریکا پر شام میں دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کا الزام عائد کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ہی سیریئن آبزرویٹری نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ 2014 ء کے آغاز سے جاری امریکی سربراہی میں قائم اتحاد کے فضائی حملوں میں تقریباً چھ ہزار دو سو افراد مارے جا چکے ہیں اور ان میں عام شہریوں کی تعداد چھ سو گیارہ تھی، جن میں سے 163 بچے تھے۔ آبزرویٹری نے کہا ہے کہ وہ یہ اعداد و شمار جاری کر کے عالمی برادری کی توجہ اس عہد اور مصیبت کی طرف مبذول کرانا چاہتی ہے، جس کا سامنا آج کل شامی شہریوں کو ہے۔