شام ميں دھماکے، ہلاک شدگان کی تعداد ڈيڑھ سو سے تجاوز کر گئی
22 فروری 2016مشرق وسطیٰ ميں سرگرم دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ نے اتوار اکيس فروری کے روز ہونے والے اِن دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ شامی دارالحکومت دمشق کے قريب ايک شيعہ اکثريتی علاقے ميں سيدہ زينب کے مزار کے قريب پہلے ايک کار بم دھماکا ہوا اور پھر دو خود کش دھماکے۔ سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے مطابق اِن دھماکوں ميں مجموعی طور پر 96 افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح وسطی شہر حمص ميں بھی الظہرہ کے مقام پر دو کار بم دھماکے ہوئے، جن ميں کُل 59 افراد لقمہ اجل بنے۔ شام کی سرکاری نيوز ايجنسی نے پوليس ذرائع کے حوالے سے بتايا ہے کہ دھماکوں ميں مجموعی طور پر 178 افراد زخمی بھی ہوئے، جن ميں عورتيں اور بچے بھی شامل ہيں۔
شام کے ليے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب اسٹيفان ڈے مستورا نے ان دھماکوں کی شديد مذمت کی ہے۔ اس بارے ميں بيان ان کے ترجمان کی جانب سے جاری کيا گيا۔
دريں اثناء مارچ سن 2011 سے جاری خونريز شامی خانہ جنگی کے خاتمے کے ليے امريکا اور روس نے کوششيں جاری رکھی ہوئی ہيں۔ امريکی وزير خارجہ جان کيری نے کچھ روز قبل باقاعدہ اعلان کيا تھا کہ شام ميں جنگ بندی کی ايک ابتدائی ڈيل طے پا چکی ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے پر گزشتہ جمعے سے عملدرآمد کی اميد تھی تاہم فريقوں کے مابين معاہدے کی شرائط پر عدم اتفاق کے سبب معاہدے کا اطلاق شروع نہ ہو سکا۔ معاہدے کو آگے بڑھانے کے ليے گزشتہ روز کيری نے اپنے روسی ہم منصب سيرگئی لاوروف سے کم از کم تين مرتبہ ٹيلی فون پر گفتگو کی۔ شام ميں جنگ بندی کی اس عبوری ڈيل پر اتفاق ايک ہفتے قبل ہی ہوا تھا۔ دوسری جانب جنيوا ميں تعطل کا شکار ہو جانے والے شامی امن مذاکرات کو بھی پچيس فروری سے دوبارہ شروع ہونا تھا تاہم مستورا کے بقول اب يہ پيش رفت غير حقيقی لگتی ہے۔
اسی دوران روسی فضائی حملوں کی مدد سے شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج نے حلب ميں اسلامک اسٹيٹ کے خلاف پيش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔ آبزرويٹری کے مطابق اس دوران کم از کم پچاس جنگجوؤں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔