’شام میں دہشت گردی کا خطرہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے‘
23 جولائی 2024شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گیئر پیڈرسن نے پیر کو اس بین الاقوامی ادارے کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ شام میں دہشت گردی کا خطرہ ''دوبارہ سر اٹھا رہا ہے‘‘ اور اس سال وہاں دہشت گرد تنظیم داعش کے حملوں میں دو گنا اضافہ ہونے والا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے وہاں شہریوں کے لیے خطرات بڑھیں گے، جب کہ وہ پہلے ہی طویل عرصے سے بے گھری کا شکار ہیں اور ان کو ''سنگین حالات‘‘ کا سامنا بھی ہے۔
گیئر پیڈرسن نے سکیورٹی کونسل کو بتایا کہ اس وقت شام میں مسلح افراد، دہشت گرد گروپ اور بیرونی فوجی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
شام کے شہریوں کو خانہ جنگی کے 13 سال بعد بھی سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔
شام میں اس طویل تنازعے کے دوران تقریباﹰ پانچ لاکھ افراد ہلاک اور جنگ سے قبل وہاں کی 23 ملین آبادی میں سے نصف افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
سن 2014 میں داعش نے شام اور عراق کے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور اب بھی ان دونوں ممالک میں اس کے سلیپر سیلز موجود ہیں۔
اس تناظر میں گیئر پیڈرسن نے سکیورٹی کونسل کو متنبہ کیا کہ شام میں سکیورٹی کی صورتحال نازک ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''شام میں علاقائی تنازعے کا خطرہ ٹلا نہیں ہے، خصوصاﹰ شام پر اسرائیلی حملوں میں اضافے کے بعد۔‘‘
اسرائیل ماضی میں بھی شام پر حملے کرتا رہا ہے لیکن اسرائیل اور ایران نواز گروپ حزب اللہ کے مابین لبنان کی سرحد پر جھڑپوں کی وجہ سے شام پر ایسے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پیر کو اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب سفیر رابرٹ اے ووڈ نے شام میں پرتشدد واقعات میں اضافے کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا۔ خطے میں ایران صدر بشار الاسد کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔
اس حوالے سے رابرٹ اے ووڈ کا کہنا تھا، ''ایران اور اس کی پراکسیز صرف ہلاکتوں اور تباہی کا باعث بنی ہیں اور وہ شامی شہریوں کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر رہیں۔‘‘ امریکی نائب سفیر نے اس بات پر بھی زور دیا کے بشار الاسد شام میں ایرانی اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں ایرانی، شامی اور روسی سفیروں نے شام میں اسرائیلی حملوں کی پر زور مذمت کی۔
بین الاقوامی فنڈنگ میں اضافے پر زور
علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے امدادی امور کے محکمے سے منسلک رمیش راجاسنگھم نے سکیورٹی کونسل کو بتایا کہ شام میں اس وقت 16 ملین سے زائد افراد کو امداد کی ضرورت ہے اور 7.2 ملین افراد بے گھر ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شمال مغربی شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں نوے لاکھ سے زائد افراد کو پانی اور صفائی کے حوالے سے سہولیات میسر نہیں ہیں اور ایسے افراد میں نصف سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔
رمیش راجاسنگھم اور گیئر پیڈرسن دونوں نے ہی شام میں امدادی امور کے لیے رسائی بڑھانے اور بین الاقوامی فنڈنگ میں اضافے پر زور دیا۔ اس حوالے سے راجا سنگھم کا کہنا تھا کہ 2024ء میں اقوام متحدہ کی شام کے لیے چار بلین ڈالر کی اپیل کے بعد اس رقم کا صرف 20 فیصد حصہ جمع کیا جا سکا ہے، جس سے امدادی کام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
م ا ⁄ ا ا (اے پی)