شام میں قیام امن کی نئی امید، امریکا کی طرف سے خیر مقدم
19 دسمبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ جمعہ اٹھارہ دسمبر کو نیو یارک منعقدہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں شام میں قیام امن کے لیے تیار کردہ اس روڈ میپ پر مکمل اتفاق کیا گیا ہے، جس کے تحت انتہا پسند گروہ داعش کو شکست دیتے ہوئے شام میں ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
اس روڈ میپ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ ماہ سے شامی حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے گا جبکہ اٹھارہ ماہ کے اندر اندر وہاں الیکشن کا انعقاد ممکن بنایا جائے گا۔ اس منصوبے میں شام میں فائر بندی کا قیام ایک اہم نکتہ ہے۔
اس روڈ میپ میں البتہ شامی صدر بشار الاسد کے مستقبل کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ صدر اسد کا اقتدار سے الگ ہونا ناگزیر ہے جبکہ اسد کے حامی ممالک روس اور ایران نے مؤقف اختیار کر رکھا ہے کہ اسد کو صدارت کے منصب سے الگ کرنے سے شامی خانہ جنگی مزید شدید ہو سکتی ہے۔
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ شامی عوام کو ہی فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ اسد کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ایران کا بھی کہنا ہے کہ شامی عوام پر کوئی بیرونی فیصلہ مسلط نہیں کیا جانا چاہیے۔
حال ہی میں ویانا مذاکرات میں عالمی رہنماؤں نے شام میں قیام امن کے لیے یہ روڈ میپ تیار کیا تھا۔ اس دو سالہ منصوبے کے تحت شام میں فائر بندی، ایک یونٹی حکومت کا قیام اور غیرجانبدار الیکشن کا نظام الاوقات طے کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں شامی حکومت اور باغیوں کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس روڈ میپ میں البتہ یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ شامی اپوزیشن کی نمائندگی کون کرے گا۔ تاہم روس نے توقع ظاہر کی ہے کہ اس روڈ میپ پر درست طریقے سے عمل کرتے ہوئے آئندہ چھ ماہ کے دوران شام میں ایک یونٹی حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں اس روڈ میپ کی منطوری کو شام میں امن کے قیام کی کوششوں کے دوران ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب فیصلہ شامی عوام کے ہاتھوں میں آ گیا ہے کہ وہ جنگ چاہتے ہیں یا امن۔ اس موقع پر کیری نے کہا کہ صدر اسد ملک کو متحد رکھنے میں ناکام ہو چکے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اسد کو فوری طور پر اقتدار سے الگ کرنا شامی خانہ جنگی کی طوالت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
متعدد مغربی اور عرب ممالک نے اپنے موقف میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بشار الاسد شام میں نئی عبوری حکومت کا حصہ تو بن سکتے ہیں لیکن آخر کار انہیں اس منصب سے الگ ہونا ہی پڑے گا۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ اسد اقتدار پر اپنا جائز حق کھو چکے ہیں۔ تاہم ایران اور روس کا کہنا ہے کہ بیرونی طاقتوں کو شامی عوام پر کوئی حل مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔