شام میں مظاہروں پر ترکی مخمصے میں
1 اپریل 2011ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا وہاں لیبیا کی طرح کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں؟ تاہم اِس طرح کے حالات پر خاص طور پر ہمسایہ ریاست ترکی کو تشویش ہے۔ اِس موضوع پر استنبول سے اُلرِش پِک اپنے جائزے میں لکھتے ہیں:
’’ترکی کے ہمسایہ ملک شام میں ہنگامے شروع ہونے کے بعد صدر بشار الاسد کی پہلی تقریر کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں ترک روزنامے ’ملت‘ نے اپنی تیس مارچ کی اشاعت میں لکھا کہ ’وہ (بشارالاسد) قذافی کی طرح باتیں کرتے ہیں‘۔ وسطی یورپ کے متعدد اخبارات کی طرح ترک پریس میں بھی صدر بشار الاسد کے بیانات پر مایوسی ظاہر کی گئی۔ تاہم جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے برعکس ترکی میں شام کے حالات کو خاص توجہ کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔
اِس حوالے سے وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے زور دے کر کہا:’’ہم نے بار بار اِس موقف کا اظہار کیا ہے کہ اگر شامی قیادت عوام کے اِن جائز مطالبات پر مثبت ردعمل ظاہر کرے اور اصلاحات کا راستہ اختیار کرے تو اِس عرب ملک کے مسائل پر کہیں زیادہ آسانی کے ساتھ قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہماری یہ نیک خواہش ہے کہ شام میں حالات ویسے نہ ہو جائیں، جیسے کہ مثلاً لیبیا میں ہوئے ہیں۔ ایسا ہوا تو ہمیں سخت تشویش ہو گی۔‘‘
ترکی گزشتہ چند برسوں کے دوران کسی بھی دوسرے ملک کے اتنا تیزی سے قریب نہیں آیا، جتنا کہ اپنے اِس جنوبی ہمسایہ ملک کے۔ 90ء کے عشرے کےاواخر میں دونوں ملک واضح طور پر ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ تب دمشق حکومت نے کردستان ورکرز پارٹی پی کے کے کے رہنما عبداللہ اوجلان کو کھلے دل کے ساتھ پناہ دینے کی پیشکش کی تھی۔ تاہم آج کل دونوں ملک آپس میں نئے اور بھرپور دوستانہ تعلقات کی باتیں کر رہے ہیں۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے شہریوں پر ویزے کی پابندی ختم کر چکے ہیں، لبنان اور اُردن کے ساتھ مل کر ایک آزاد تجارتی زون قائم کرنے پر غور کر رہے ہیں اور گزشتہ برس اِن دونوں ہمسایہ ملکوں نے مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی تھیں، جس پر اسرائیل خاصا ناراض بھی ہوا تھا۔
اب اگر شام میں ہونے والے عوامی مظاہرے ملک بھر میں پھیل کر ایک طرح کی خانہ جنگی کی شکل اختیار کر جاتے ہیں تو ترکی کے ساتھ شام کے تعلقات پر بہت منفی اثر پڑے گا۔ ترک وزیر اعظم ایردوآن کہتے ہیں:’’مَیں نے دو مرتبہ صدر اسد کے ساتھ فون پر بات کی ہے۔ اِس کے علاوہ ہم نے ترک خفیہ سروس کے سربراہ کو بھی شام بھیجا ہے۔ ہمارے درمیان نہ صرف 800 کلومیٹر مشترکہ سرحد ہے بلکہ دونوں ممالک کی اَقوام کے درمیان رشتے داریاں بھی ہیں۔ ایسے میں ہم وہاں پیش آنے والے حالات پر اپنی آنکھیں اور کان بند نہیں رکھ سکتے۔‘‘
ترک وزیر اعظم ایردوآن نے صدر بشار الاسد کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا وہ مشورہ نہیں دیا ہے، جو اُنہوں نے چند ہفتے قبل مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کو دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب انقرہ حکومت کو یہ الزام سننا پڑ رہا ہے کہ وہ تجارتی فوائد کے پیشِ نظر دمشق کے مطلق العنان حکمران کی جانب نرم طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ تاہم ایردوآن کے محتاط رویے کی وجہ صرف فروغ پاتی تجارت ہی نہیں بلکہ شام کی داخلی سیاست بھی ہے۔ شام میں قیادت علوی شیعہ اقلیت کے ہاتھوں میں ہے، جو ملکی آبادی کا تقریباً دَس فیصد بنتے ہیں۔ اسد کے سخت طرزِ حکمرانی کی شدت سہنے والی اکثریتی آبادی ترکی ہی کی طرح سنیوں کی ہے۔
ترکی کے سینٹر فار نیشنل اسٹریٹیجک اسٹڈیز USAK سے وابستہ عثمان بہادر ڈِنچَیر کہتے ہیں:’’شام میں خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہونے کی صورت میں انقرہ حکومت کو اِس مشکل سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ کس کا ساتھ دے، اپنے دوست اسد کا یا پھر شامی قوم کا؟ ترکی اِس تکلیف دہ صورتحال سے بچنا چاہتا ہے اور گزشتہ کسی برسوں سے درپردہ اِسی سسلسلے میں کوششوں میں لگا ہوا ہے۔‘‘
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عاطف بلوچ