شام پر امریکی حملہ، پہلی رکاوٹ دور
5 ستمبر 2013امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی نے شام کے خلاف عسکری کارروائی کو سات کے مقابلے میں دس ووٹوں سے منظور کر لیا ہے۔ بدھ کے دن اس پینل کی طرف معمولی اکثریت سے منظور ہونے والے اس منصوبے سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر باراک اوباما کو ایوان نمائندگان میں اس کی توثیق کے لیے مشکل ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف برطانیہ کی پارلیمان نے شام پر حملے کی مخالفت کی ہے جب کہ فرانسیسی پارلیمان بھی اس حوالے سے تحفظات کا شکار رہی ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام پر امریکی حملے کے حق میں سات ڈیموکریٹ اور تین ری پبلکن سیاستدانوں نے ووٹ دیا جب کہ پانچ ری پبلکن اور دو ڈیموکریٹ سینیٹرز نے اس کی مخالفت کی۔ اس منصوبے کے مطابق امریکی افواج شامی صدر بشار الاسد کے خلاف زمینی کارروائی میں شریک نہیں ہوں گے۔ ابتدائی طور پر امریکی فوجی کارروائی ساٹھ دنوں پر محیط ہو گی، جس میں ضرورت پڑنے پر تیس دن کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی سے اس منصوبے کی منظوری کے بعد بھی سینیٹ اور کانگریس سے اس کی حتمی منظوری کے بارے میں شک و شہبات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ادھر وائٹ ہاؤس نے شام پر حملے کے سلسلے میں پہلی رکاوٹ دور ہونے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد کے خلاف کارروائی امریکی قومی سلامتی سے جڑے مفادات کے لیے ضروری ہے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جے کارنی نے کہا ہے کہ امریکی فوجی مداخلت سے نہ صرف صدر اسد کی طرف سے کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے کی اہلیت کو نقصان پہنچے گا بلکہ وہ آئندہ ایسے مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے باز بھی رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن حکومت شامی بحران کے خاتمےکے لیے سیاسی حل بھی تلاش کرتی رہے گی۔
مقامی میڈیا کے مطابق اس قرارداد پر رائے شماری سے قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری، وزیر دفاع چک ہیگل اور چیئرمین آف دی چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے ملاقات کی، جس کے بعد انہوں نے سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ممبران کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران جان کیری نے کہا کہ شام پر حملہ کرنے کے خطرات حملہ نہ کرنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ’مہذب اقوام کی اقدار اور قوانین‘ کی پاسداری کے لیے امریکا کو آگے بڑھنا پڑے گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اگر اب امریکا کوئی ایکشن نہیں لیتا تو اس سے بشار الاسد کو مزید تقویت ملے گی اور وہ مستقبل میں ایسے ہتھیاروں کا استعمال بغیر کسی خوف کے کرتے رہیں گے۔
دوسری طرف امریکی صدر باراک اوباما شام پر حملے کے لیے عالمی سطح پر حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ متعدد خبر رساں اداروں کے بقول روس میں منعقد ہو رہی جی ٹوئنٹی کے اجلاس میں صدر اوباما اس حوالے سے اپنے اتحادیوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔