شام کی صرف ایک جیل میں 13 ہزار افراد کو پھانسی، ایمنسٹی
7 فروری 2017ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے ایک نئی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں 2011ء سے 2015ء کے عرصے کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس رپورٹ کےمطابق صدنایا نامی جیل میں ہر ہفتے اوسطاﹰ 20 سے 50 افراد کو کو پھانسی دی گئی۔ ان پھانسیوں کی اجازت سینیئر شامی حکام جن میں صدر بشار الاسد کے نائبین بھی شامل ہیں، کی طرف سے دی جاتی تھی جبکہ ان پر عملدرآمد ملٹری پولیس کرتی تھی۔
ایمنسٹی کی طرف سے جاری کردہ اس رپورٹ میں پھانسیوں کی ان سزاؤں کو ’’ماورائے عدالت ہلاکتوں کی سوچی سمجھی مہم‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیروت میں قائم علاقائی دفتر میں ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ریسرچ کام کرنے والی لِن مالوف کے مطابق شام میں 2011ء کے بعد تشدد کے 35 مختلف طریقوں پر بہت زیادہ عمل کیا گیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گزشتہ برس جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں انسانی حقوق کے دیگر گروپوں کو بھی اس طرح ثبوت ملے ہیں جن میں شامی حراستی مراکز میں لوگوں کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا۔
ایمنسٹی کے مطابق 2011ء کے بعد سے حراست میں موجود 17 ہزار سے زائد افراد تشدد یا ناروا سلوک کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد اوسطاﹰ 300 افراد ماہانہ بنتی ہے۔ یہ تعداد حلب میں ہونے والی جنگ کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کے قریب قریب ہے۔ بد ترین خانہ جنگی کے شکار صوبہ حلب میں 2011ء سے اب تک 21 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
مالوف کے مطابق تازہ ترین دستیاب اعدادوشمار 2015 تک کے ہیں مگر یہ تسلیم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کے بعد شامی حکومت اپنے مخالفین کو دبانے کے ان طریقوں میں کوئی نرمی لے آئی ہو گی۔ لہذا اس دوران ممکنہ طور پر ہزاروں دیگر افراد ہلاک کیا جا چکا ہوگا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی علاقائی خاتون ریسرچ ڈائریکٹر لِن مالوف کے مطابق، ’’موت کی سزاؤں پر یہ عملدرآمدا ایک انتہائی مختصر عدالتی کارروائی کے بعد کیا جاتا ہے جس کا دورانیہ محض ایک سے دو منٹ ہوتا ہے، مگر اس کی اجازت مفتی اعظم اور وزیر دفاع سمیت اعلیٰ حکام کی طرف سے دی جاتی ہے۔‘‘
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق شامی حکام تشدد اور ہلاکتوں کے بارے میں اپنا رد عمل شاذ و نادر ہی دیتے ہیں۔ ماضی میں ان کی طرف سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے جمع کردہ ہلاکتوں کے بارے میں اعداد وشمار کو پراپیگنڈا قرار دیتے ہوئے رد کیا جاتا رہا ہے۔