شاہدہ جیبن: ایک باہمت خاتون سیاسی کارکن، جمہوریت کی سپاہی
3 مارچ 2021ایوبی آمریت کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح میدان عمل میں آئی توجنرل ضیا کی بدترین مارشل لا کو بے نظیر بھٹونے للکارا۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ انہوں نے نہ صرف ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کیا بلکہ وہ یحییٰ، ضیا اور مشرف کی آمریت کے خلاف بھی بھرپور آواز بن کر ابھری۔ پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں کئی گمنام خواتین نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ انہی میں سے ایک لاہور کی رہائشی شاہدہ جبین ہیں۔
پاکستانی جیلوں میں قید خواتین کے خوفناک حالات
سیاست میں دلچسپی
شاہدہ جبین کا کہنا ہے کہ جب وہ چھٹی کلاس میں تھی انہوں نے اس وقت سے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی،''کیونکہ میرے ناخواندہ تھے اس لئے وہ اخبار لا کر اپنی بیٹیوں کو دیتے تھے تاکہ وہ اس کو پڑھ کر سنائیں اس دوران ذولفقارعلی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اور اور شاید آج بھی کے والد کہا کرتے تھے کہ یہ شخص پاکستان کی قسمت بدل دے گا۔‘‘
مرد اور عورت کے حقوق کی جنگ کب تک؟
ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت
شاہدہ جبیں کا کہنا ہے کہ ان کے والد ایک نجی اسٹیل فاؤنڈری میں کام کرتے تھے جہاں مزدوروں پر بہت ظلم و ستم ہوتا تھا اور اسی لئے پی پی پی کے نظریات نے ان کو اور ان کے والد کو متاثر کیا۔
شاہدہ جبین کا کہنا تھا کہ جب پیپلز پارٹی کے کارکنان نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خود گرفتاری دیں گے تو میں نے راولپنڈی میں گرفتاری دی،''راولپنڈی میں دو اکتوبر سن 1978 کو گرفتاری دی تومیری بیٹی صرف پانچ ماہ کی تھی۔‘‘ شاہدہ جبین کوایک فوجی عدالت نے ایک سال کی قید بامشقت دی جو انہوں نے ملتان جیل میں گزاری اور سزا کاٹنے کے بعد واپس لاہور منتقل ہو گئیں۔
خواتین شدت پسندوں کا ٹارگٹ کیوں بنیں؟
بھائی کو پھانسی
شایدہ جبین نے سن 1979 میں بلدیاتی انتخابات لڑ کر عوام کی خدمت کرنے کی کوشش کی لیکن ملک میں جبر کی حکومت تھی اور وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ تحریک بحالی جمہوریت کے شروع ہونے پر ایک بار پھر شاہدہ جبین کو سن1981 میں گرفتار کر کے ریمانڈ کے نام پر تقریبا تین سال کوٹ لکھ پت جیل میں رکھا گیا۔ جون سن 1984 میں رہائی ضرور ملی مگر اسی برس اگست میں ان کے بھائی عثمان غنی کو پھانسی دے دی گئی۔
بھائی کی موت نے بھی شاہدہ جیبن کے حوصلوں کو پست ہونے نہیں دیا اور انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔