شدت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہونا چاہیے، فرانسیسی عوام
30 مارچ 2018یہ دونوں جائزے فرانس میں ہوئے حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بعد مرتب کیے گئے ہیں۔ فرانسیسی صدر ماکروں کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مخالفین نے اُن سے سلامتی امور پر مزید سخت موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں ماکروں کو یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ اگر ایسی مساجد اور اماموں کے خلاف اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جو نفرت انگیز تقاریر کو فروغ دیتے ہیں، تو ماکروں کو عوام کی طرف سے بھر پور حمایت حاصل ہو گی۔
آج بروز جمعہ شائع ہوئے ایک عوامی جائزے کے مطابق ستاسی فیصد فرانسیسی عوام کی رائے میں ایسے مسلمان جن پر انتہا پسندانہ مذہبی نظریات رکھنے کا شبہ ہو، انہیں گرفتار کر لینا چاہیے۔ اِسی سروے میں اٹھاسی فیصد لوگوں نے سلفی طرز اسلام کو کالعدم قرار دینے کی حمایت کی۔
ایک دوسرے پول میں اسّی فیصد افراد نے مذہبی انتہا پسندانہ خیالات رکھنے والے افراد کو ملک سے باہر نکالنے کی تجویز دی جبکہ قریب چالیس فیصد کا کہنا تھا کہ صدر ماکروں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا رہے۔
سن انیس سو اسّی سے اب تک فرانس میں حکومتیں ملک میں اسلام کے ایک لبرل پہلو کے انضمام کی کوشش کرتی رہی ہیں لیکن انہیں ناکامی ہوئی ہے۔
یہ معاملہ فرانس کی ایک سپر مارکیٹ میں تیئیس مارچ کو ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد ایک بار پھر گرم ہو گیا ہے۔ سن 2015 سے لے کر اب تک 240 افراد دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
سلفی عقیدے کے لوگ ابتدائے اسلام کے نظامِ خلافت کو صحیح اور درست اور اپنے عقیدے کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ سلفی اسلام میں مغربی جمہوری روایات کو کھلے عام ناپسند کیا جاتا ہے اور یہ اِن مسلمانوں کی مغرب بیزاری کی عکاسی کرتا ہے۔