شدید گرمی، رمضان اور طویل لوڈ شیڈنگ
22 جون 2015حکومت کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ گھریلو صارفین کے لئے لوڈشیڈنگ نہیں کی جارہی۔ اتوار کی شام پانی وبجلی کے وفاقی سکریٹری یونس ڈھاگہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا، ’’سولہ کروڑ سے زیادہ شہریوں کو بجلی کی فراہمی بلاتعطل کی جارہی ہے، اور ہفتے کے روز بارش سے ہونے والے تمام نقائص درست کردیے گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس طوفانی بارش نے ایران مکران ٹرانسمیشن لائن کے چار ستونوں کو نقصان پہنچایا تھا جن کی مرمت کی جارہی ہے۔ سرکاری شیڈیول کے مطابق ملک میں تمام گھریلو فیڈرز سحری سے ایک گھنٹہ قبل اور ڈیڑھ گھنٹے بعد لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ تھے۔ حکام نے اعلان کیا تھا کہ افطار، تراویح اور سحری کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائے گی۔
تاہم رمضان کے آغاز پر ہی ملک کے بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور پشاور سمیت متعدد شہرو ں میں ہونے والی طویل دورانیے کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے شہریوں کو سٹرکوں پر آکر حکومت مخالف احتجاج پر مجبور کر دیا۔
دارالحکومت اسلام آباد کے بعض سیکٹروں اور مضافتی علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ نے شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اسلام آباد کے مضافاتی علاقے بھارہ کہو کے ایک رہائشی مزمل منصور نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارے علاقے میں پورا پورا دن لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے اگر بجلی آئے بھی تو اس کے وولٹیج اتنے کم ہوتے ہیں کہ اس سے پھنکا تک نہیں چلتا۔ بجلی کے بل پر دیے گئے واپڈا کے متعلقہ افسران کے نمبروں پر رابطہ کریں تو وہ مسلسل مصروف ملتے ہیں یا پھر کوئی جواب ہی نہیں دیتا۔‘‘
راولپنڈی کے علاقے صادق آباد کے رہائشی ممتاز احمد جو اسلام آباد کی ایک نجی کمپنی میں گرافک ڈیزائنر ہیں کا کہنا تھا، ’’کاش حکومت میٹرو منصوبے پر پینتالیس ارب لگانے کی بجائے جڑواں شہروں میں بجلی کی فراہمی کے منصوبے پر رقم کرچ کرتی تو آج رمضان کے مہینے میں اتنی لمبی لوڈ شیڈنگ دیکھنے کو نہ ملتی۔‘‘
وزارت پانی وبجلی کے حکام کے مطابق اس وقت ملک میں بجلی کی طلب تقریباﹰ اکیس ہزار پانچ سو میگا واٹ یومیہ ہے جبکہ رسد تقریباﹰ پندرہ ہزار میگا واٹ ہے۔ اس طرح بجلی کا یومیہ شارٹ فال ساڑھے چھ ہزار میگا واٹ یومیہ ہے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پیدا ہونیوالے حا لات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں، جو پہلے کسی بھی مسئلے پر متحد نہیں ہوتی تھیں، اب بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج میں متحد ہو گئی ہیں۔ پیر کے روز قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی زیر قیادت اپوزیشن جماعتوں نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف ایوان میں احتجاج کیا اور پھر واک آؤٹ بھی کیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت یقین دہانیوں کے باوجود بلا تعطل بجلی فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ کے باعث لوگ مر رہے ہیں لیکن حکومت ان کی مشکلات میں کمی کے لئے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ تحریک انصاف کے راہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گرمی کی وجہ سے 150 کے قریب اموات ہوئیں۔ انہوں نے کہا، ’’ان کی (حکومتی عہدیداروں) باتیں سنیں تو لگتا ہے کہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، ایوان میں تقریریں ہوں، یا ٹی وی ٹاک شوز میں ان کی باتیں سن لیں تو لگتا ہے کہ اسے زیادہ خوشحالی ملک میں کبھی تھی ہی نہیں لیکن جناب یہ درست نہیں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے لوگ شدید عذاب میں ہیں۔‘‘
اس موقع پر ایم کیو ایم، عوامی جمہوری پارٹی اور مسلم لیگ عوامی کے شیخ رشید احمد نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ تمام ترقیاتی فنڈز بجلی کی پیداوار پر لگائیں تاکہ لوگوں کو اس عذاب سے نکالا جا سکے۔