1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شریعہ پولیس ہم جنس افراد کو رہا کرے

3 اپریل 2018

انڈونیشیا میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکان نے اس ملک کے صوبہ آچے کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان چار افراد کو جلد رہا کرے جن پر ہم جنس پرستی کا الزام ہے۔

https://p.dw.com/p/2vPNq
Indonesien Prügelstrafe in der Provinz Aceh
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Juanda

سیکولر ملک انڈونیشیا میں آچے وہ واحد صوبہ ہے جہاں اسلامی شرعی قانون نافذ ہے اور جہاں ہم جنس پرستی قانوناﹰ جرم ہے۔ انڈونیشیا کی پارلیمان میں بھی ایسے قوانین پر بحث جاری ہے جن کے تحت شادی کے علاوہ جنسی تعلقات کو جرم قرار دیا جائے گا۔ انڈونیشیا  میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون کے ذریعے ہم جنس پرستوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستی کے الزام میں چار افراد کو خود ساختہ طور پر جرائم پر نظر رکھنے والے افراد اور پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ ان افراد پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں ایک سو کوڑوں کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ آچے کے صوبائی دارالحکومت بندا آچے میں پولیس کے سربراہ مارزوکی کا کہنا تھا، ’’ہم ان افراد کے بارے میں تفتیشی عمل مکمل کر رہے ہیں جلد ہی انہیں استغاثہ کے حوالے کر دیا جائے گا۔‘‘

’ڈیٹ‘ پر جانے کی سزا کوڑے

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ کوڑوں کی سزا بین الاقوامی قوانین کے تحت تشدد کے زمرے میں آتی ہے۔ اس تنظیم میں ایل جی بی ٹی افراد کے ڈائریکٹر گرام ریڈ کا کہنا ہے، ’’صوبہ آچے کی انتظامیہ کو ان چار مشتبہ افراد کو جلد رہا کر دینا چاہیے اور خود ساختہ طور پر جرائم پر رکھنے والوں کے اقدامات سے عام لوگوں کو محفوظ رکھنے کو یقینی بنایا جائے جو معاشرے کے ایسے طبقات کو نشانہ بنتاتے ہیں جو خطرات کا شکار ہیں۔‘‘

آچے میں پولیس اور اس طرح کے افراد اکثر گھروں اور دفاتر پر چھاپے مار کر لوگوں کو ہم جنس پرست ہونے کے شبے پر گرفتار کر لیتے ہیں۔ اس سال کے آغاز میں اس صوبے کی پولیس نے بارہ ٹرانس جینڈر خواتین کو گرفتار کر لیا تھا اور انہیں زبردستی مردوں کا لباس پہننے پر مجبور کیا تھا۔ پولیس نے ان خواتین کے بال بھی مردوں کے انداز میں کاٹ دیے تھے۔

ب ج/ ا ا، روئٹرز