شمالی اور جنوبی کوریا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی
29 مارچ 2010پیانگ یانگ میں ملکی فوج کے ایک ترجمان نے کہا کہ جنوبی کوریا جان بوجھ کر سرحدی علاقوں میں سیاحوں کو جانے کی اجازت دے رہا ہے جو شمالی کوریا کے مطابق نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد 1950 تا 1953 تک لڑی گئی جنگ کے باعث سیاحوں میں مقبول ہے۔ یہ سرحد جنوبی کوریائی، امریکی اوراقوام متحدہ کے دستوں کے اتحاد اور شمالی کوریا اور چینی فوج کے اتحاد کے مابین جنگ بندی کے بعد متعین کی گئی تھی۔
ہرسال لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح جنوبی کوریا کی طرف سے زمانہ ء سرد جنگ کے اس آخری محاذ کی یادگار کو دیکھنے آتے ہیں۔ شمالی کوریا نے امریکہ اور جنوبی کوریا کو خبردار کیا ہے کہ اگران کے روئیے میں تبدیلی نہیں آئی تواس کے غیر متوقع نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی میں حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے جمعے کے روز پراسرار انداز میں ڈوبنے والے جنوبی کوریا کے بحری جنگی جہاز کے عملے کے 46 افراد کے زندہ بچ جانے کے امکانات اب تقریباً ناپید ہوگئے ہیں۔ جنوبی کوریا کی بحریہ کا یہ جہاز شمالی کوریا کی سمندری حدود کے قریب نامعلوم وجہ کے باعث اچانک ڈوب گیا تاہم عملے کے 58 افراد کو زندہ بچالیا گیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان اسی ’’بحر زرد‘‘ میں 1999ء اور 2002ء کے دوران جنگ ہوچکی ہے۔ سیول میں جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ باک نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کرکے جمعہ کو پیش آئے اس واقعے کی جامع تحقیقات کے احکامات جاری کئے ہیں۔ واقعے میں لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین کو فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق متاثرہ جہاز دو ٹکڑے ہونے کے فوری بعد ڈوب گیا تھا۔ جنوبی کوریا کی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے ترجمان لی کی سیک کے بقول خدشہ ہے کہ لاپتہ ہونے والے تمام افراد ڈوبنے والے جہاز کے اندرہی پھنس گئے ہو۔
جنوبی کوریائی حکام فوری طور پر شمالی کوریا پرالزام تراشی سے اجتناب کرتے ہوئے تحقیقات کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق 88 میٹر طویل اس جہاز پر میزائل اور دیگر آتش گیر مواد موجود تھا تاہم حادثےکا سبب بیرونی عوامل کو قرار دیا جارہا ہے۔ سیول حکومت نے فوری طور پرشمالی کوریا پر الزام تراشی سے اجتناب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ابھی تمام پہلوؤں کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت :عدنان اسحاق