شمالی عراق، امدادی کارروائیوں میں برطانیہ اور فرانس بھی شریک
10 اگست 2014امریکی صدر باراک اوباما نے جمعرات کے دن اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن حکومت اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے نرغے میں پھنسی اقلیتی آبادی کے تحفظ کے لیے فضائی کارروائی شروع کر رہی ہے، جس کے دو دن بعد ہی فرانس اور برطانیہ نے بھی اس ہنگامی کارروائی میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
شمالی عراق میں واقع سنجار کے علاقے میں سنی انتہا پسندوں کی پیشقدمی کی وجہ سے وہاں کی مقامی آبادی ایک ہفتہ قبل ایک پہاڑی علاقے کی طرف فرار ہو گئی تھی۔ ان افراد کے پاس خوراک اور پانی کی قلت کی وجہ سے ایسے خدشات پیدا ہو چکے ہیں کہ اگر ان کی فوری مدد نہ کی گئی تو وہ دم توڑ دیں گے۔ صدر اوباما کے بقول ایزدی آبادی کی ممکنہ نسل کشی روکنے کی خاطر واشنگٹن حکومت فوری عمل کرے گی۔
ادھر عراقی وزیر برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں نے کم ازکم 500 ایزدی باشندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اتوار کے دن انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ایسے شواہد ہیں کہ زندہ درگور کرنے والے کچھ افراد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ان کے بقول جنگجوؤں نے تین سو افراد کو حال ہی میں اغوا کیا تھا اور ان سے غلاموں جیسا سلوک برتا جا رہا تھا۔
امریکی فوج نے بتایا ہے کہ سنجار کے علاقے میں امریکی فضائیہ چار منظم حملے کر چکی ہے، جن میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ ساتھ ہی ایزدی آبادی کے لیے ہوائی جہازوں کے ذریعے پانی، خوراک اور دیگر امدادی سامان بھی پھینکا جا رہا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق اتوار کے دن برطانوی فضائیہ نے بھی سنجار کے پہاڑی علاقے پر پناہ لیے ہوئی ایزدی آبادی کو امدادی سامان پہنچانے کے لیے آپریشن کیا ہے۔
ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کوہ سنجار میں پھنسی آبادی کی ایک بڑی تعداد وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ کرد حکام کے بقول ایزدی آبادی کے قریب بیس ہزار افراد وہاں سے کرد علاقوں میں پہنچ چکے ہیں تاہم اب بھی وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔
فرانسیسی وزیر خارجہ عراق میں
اسی تناظر میں فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس بھی عراق کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ ان امدادی کارروائیوں کی مؤثر نگرانی کی جا سکے۔
اتوار کے دن بغداد میں انہوں نے عراقی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران زور دیا کہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مؤثر کارروائی کے لیے عراق میں وسیع تر یونٹی حکومت کا قیام ناگزیر ہے۔
فابیوس کے بقول، ’’عراق کی یہ غیر معمولی صورتحال وہاں ایک یونٹی حکومت کے قیام کی متقاضی ہے کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف جاری اس کارروائی میں ایک وسیع تر مخلوط حکومت ہی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔‘‘