شمالی وزیرستان کے مہاجرین کا گھروں کو واپسی کا مطالبہ
25 اگست 2014صوبے خیبر پختونخوا کے ان سکولوں میں 22 ہزار خاندان پناہ لیے ہوئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر قبائلی روایات اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے کیمپوں میں جانے پر تیار نہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ شمالی وزیرستان کا کھجوری چیک پوسٹ سے دتہ خیل تک کا 80 فیصد سے زائد علاقہ دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔ اس پر ان قبائل کا کہنا ہے کہ جو علاقے صاف ہو چکے ہیں، وہاں کے لوگوں کو اپنے گھروں کو جانے دیا جائے۔
وزیرستان کے امن جرگہ کے رکن ملک نور رحمان نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ہمیں کہا جا رہا ہے کہ سکولوں سے نکل جائیں۔ یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ہمارے لیے نہ کوئی کیمپ بنایا گیا ہے اور نہ ہی پہلے سے موجود کیمپ میں کوئی سہولت موجود ہے۔“
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی کہہ رہی ہے کہ انہوں نے88 فیصد علاقہ کلیئر کر دیا ہے۔ اس لیے ان کا مطالبہ ہے کہ جو علاقے کلیئر ہیں، وہاں کے لوگوں کو واپس جانے دیا جائے۔ اسلام آباد میں انتخابات میں بے قاعدگیوں کے خلاف احتجاجی دھرنوں اور لانگ مارچ کی وجہ سے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی مشکلات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں نے ان کی مشکلات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے ان لوگوں کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ متاثرین کے مسائل پر حکام سے بات کرنے کے لیے پچاس رکنی کمیٹی بھی بنائی گئی ہے، جس کا مطالبہ ہے کہ جو علاقے صاف ہو چکے ہیں، وہاں کے رہائشی قبائل کو واپس اپنے گھروں کو جانے کی اجازت دی جائے، بصورت دیگر انہیں اسلام آباد جانے اور وہاں سرکاری زمین اور عمارتوں میں کیمپ لگانے کے لیے کہا جائے گا۔
اس جرگے کے ایک رکن رعایت اللہ خان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”متاثرین کو نہ خوردنی اشیاء ملتی ہیں اور نہ دوسری سہولیات۔ اسی طرح انہیں نقد امداد کے لیے جو موبائل فون سم دی گئی ہے، وہ بھی بلاک ہے۔ ابھی اس جرگے نے فیصلہ کیا ہے کہ مرحلہ وار صدر، وزیر اعظم، گورنر اور آرمی چیف سے ملاقات کریں اور انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کریں گے۔ اگر اس کا کوئی حل نہ نکلا تو ان دس لاکھ لوگوں سے کہیں کہ آؤ اسلام آباد چلیں۔ ‘‘
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہ کی وجہ سے متاثرین کبھی پشاور اور کبھی بنوں میں احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر امداد کی فراہمی کا نہیں بلکہ اپنے گھروں کو واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن جہاں دونوں حکومتیں احتجاجی سیاست کی وجہ سے مصروف ہیں، وہیں پر سرکاری اہلکاروں نے بھی متاثرہ افراد کی امداد سے منہ موڑ لیا ہے۔