شنگھائی تعاون تنظیم ، سربراہ اجلاس
15 جون 2009شنگھائی تعاون تنظیم کی باقاعدہ شروعات سن 1996 سے ہوئی تھی تب اِس کو شنگھائی فائیو کہا جاتا تھا۔ پانچ سال بعد یعنی سن 2001 میں ازبکستان کی شمولیت کے بعد اِس کے نام میں تبدیلی لائی گئی اور اِسے شنگھائی تعاون تنظیم کا نام دیا گیا۔ حکومتوں کے مابین کام کرنے والی اِس تنظیم کی سرکاری زبانیں روسی اور چینی ہیں۔
اِس تنظیم کے اہم ترین اور فعال ملک روس اور چین ہے۔ دیگر ممبر ملکوں میں وسطی ایشیائی ریاستوں کے ملک قزاقستان، تاجکستان، اُزبکستان اور کیرغیزستان ہیں۔ تنظیم ہمہ جہت پہلووں میں متحرک ہے۔
اِس کے مبصر ملکوں میں پاکستان اور بھارتسمیت ایران اور منگولیا بھی ہیں شامل ۔ دونوں ملک شنگھای تعاون تنظیم کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کی تگو دو میں ہیں اور سفارتی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف نے اِس تنظیم کے شنگھائی منعقدہ سن 2006 کے اجلاس میں اپنے ملک کے مکمل رکن بننے کی بھرپور وکالت کی تھی۔
اِسی طرح تنظیم کے مکالمت کی سطح کے پارٹنر ملک بھی ہیں جن میں سری لنکا اور بیلا روس ( سفید روس ) شامل ہیں۔ اِس تنظیم کے سربراہ اجلاسوں میں مہمانوں کی فہرست میں افغانستان، آسیان تنظیم اور وسطی ایشیائی ملکوں کی تنظیمیں CIS شامل ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس سن 2001 سے تواتر کے ساتھ سالانہ بنیادوں پر جاری ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم پر سکیورٹی، اقتصادی اور ثقافتی سرگرمیوں کو مسلسل جاری رکھا جا رہا ہے۔ تعاون کا مرکزی شعبہ تعاون سکیورٹی اور اقتصادی خیال کیا جاتا ہے۔
روس اِس تنظیم کے سربراہ اجلاس کا تیسری بار میزبان بن رہا ہے۔ پہلے دو اجلاسوں کے میزبان شہر ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ تھے۔ پیر، پندرہ جون سے شروع ہونے والے سربراہ اجلاس کے لئے میزبان شہر ایکاترین برگ (Yekaterinburg)کو منتخب کیا گیا ہے۔ یورال پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع یہ شہر روس کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ یہ دریائے اِسٹ کے کنارے پر آباد ہے۔
پیر سے شروع ہونے والے اجلاس میں مبصر ملکوں کے سربراہوں میں ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اور پاکستانی صدر آصف علی زرداری بھی شامل ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی اس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اِس کانفرنس میں افغان صدر حامد کرزئی بھی اپنے ملک کی نمائندگی کے لئے موجود تھے۔
پاکستان اور افغانستان کی سکیورٹی صورت حال کے تناظر میں صدر زرداری اور صدر کرزئی کے ساتھ روسی صدر میدویدیف ایک اہم میٹنگ میں بھی شرکت کی۔ اِس میٹنگ میں دونوں ملکوں میں عسکریت پسندی اور دوسرے سکیورٹی اُمُور پر تعاون اور روس کے ممکنہ کردار پر بات چات کا کا جائزہ لیا گیا۔
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد گزشتہ روز روسی شہر ایکترین برگ نہیں پہنچ سکے تھے۔ وہ آج پہنجچیں گے اور اُئ کے بعد کانفرنسوں کی مصروفیات کے علاوہ روسی صدرکے ساتھ ملاقات میں کئی دوطرفہ موضوعات پر بات کریں گے۔