شور کے خلاف عالمی دن: شور کیا ہے اور ہمیں کیسے متاثر کرتا ہے
27 اپریل 2022کسی موٹر کے چلنے کی تیز آواز، بہت زور سے چیخنا یا مشینوں کے استعمال سے پیدا ہونے والی تیکھی آوازیں، خاص طور پر بڑے شہروں میں رہنے والے ایسی بہت سی آوازوں سے نہ صرف آگاہ ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بے چین کر دینے والی ایسی اونچی اور مسلسل آوازیں انسانی مزاج کو کس طرح متاثر کرتی ہیں۔
شور کی طبی تعریف
طبی اور نفسیاتی ماہرین شور کی تعریف یوں بھی کرتے ہیں کہ شور کے لیے کسی آواز یا آوازوں کا بہت اونچا ہونا لازمی نہیں بلکہ ان کا ناپسندیدہ ہونا لازمی ہوتا ہے۔ شور کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ سننے والا اسے بیزار کن محسوس کرتا ہے اور اس سے دور بھاگنا چاہتا ہے۔
آج ستائیس اپریل کو منایا جانے والا شور کے خلاف عالمی دن ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد زمین پر انسانی آبادی کے اس حوالے سے شعور میں اضافہ کرنا ہے کہ شور محض بیزار کردینے والی آواز یا آوازیں ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسانوں کو اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ وہ باقاعدہ بیمار بھی ہو جاتے ہیں۔
توجہ کے ارتکاز میں خلل
جرمنی میں شور اور اس کے اثرات پر تحقیق کرنے والی ریسرچر بریگِٹے شُلٹے فورٹ کامپ ان دنوں زیادہ تحقیق اس بارے میں کر رہی ہیں کہ عام انسانوں میں شور کے شعور سے متعلق حالیہ کچھ عرصے میں کس طرح کی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔
اس محققہ نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ شور یا انگریزی میں noise کسی آواز یا متعدد آوازوں کے اس مجموعے کا نام ہے، جسے سننا انسانی دماغ پر بوجھ کا باعث بنتا ہے۔ یہی شور اپنی عمومی حالت میں نہ صرف توجہ کے ارتکاز میں خلل ڈالتا ہے بلکہ انتہائی حالت میں یہ متعلقہ انسان کو بیمار بھی کر دیتا ہے۔
ٹریفک کا شور، تشویش ناک اعداد و شمار
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ٹریفک کے بہت زیادہ شور کا سامنا تو دنیا کے تمام بڑے شہروں کو ہے، صرف ایشیا اور افریقہ کے کروڑوں کی آبادی والے بہت بڑے بڑے شہروں ہی کو نہیں بلکہ مغربی یورپ کے ان شہروں کو بھی جہاں ٹریفک کی ناقابل یقین بہتات ہوتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق عالمی سطح پر ٹریفک کا بے ہنگم شور اتنا نقصان دہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے ہر سال انسانی زندگی کے ایک ملین سے زائد صحت مند برس ضائع ہو جاتے ہیں۔ ایک ملین سے زائد صحت مند برسوں کے اس سالانہ ضیاع کا مطلب یہ ہے کہ یوں متاثرہ انسانوں کی زندگی کا صحت مند ہونا محدود ہو جاتا ہے اور بہت سے واقعات میں تو بیماریوں کے نتیجے میں یہی شور انسانوں کی قبل از وقت موت کی وجہ بھی بنتا ہے۔
دوران خون کے نظام کی بیماریاں
جرمن آکُسٹک سوسائٹی اور وفاقی جرمن دفتر برائے ماحول کی طرف سے شور کے خلاف شعور کے عالمی دن کی مناسبت سے منگل 26 اپریل کو منعقد کی گئی ایک مرکزی تقریب میں طبی ماہرین نے زور دے کر کہا کہ مسلسل شور کا سامنا کرتے رہنا انسانوں میں سماعت، دماغ، دل اور دوران خون کے نظام سے جڑی کئی مختلف بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔
ان طبی مسائل میں کم خوابی سے لے کر بے خوابی تک اور ذہنی چڑچڑے پن سے لے کر کئی اقسام کے نفسیاتی عارضے بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طبی اور ماحولیاتی ماہرین ایک عرصہ ہوا شور کو بھی ماحولیاتی آلودگی ہی کی ایک قسم تسلیم کرتے ہیں اور اس آلودگی سے بچنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
کتنی اونچی آواز کو شور کہتے ہیں؟
جرمن ریسرچر شُلٹے کامپ کہتی ہیں کہ مختلف انسانوں کا شور کے بارے میں ذہنی اور نفسیاتی ردعمل مختلف ہوتا ہے۔ لیکن مسلسل بہت زیادہ شور لوگوں میں بے چینی کا سبب نہ بنے، ایسا بہت ہی کم دیکھنے میں آتا ہے۔ سائنسی طور پر ہر وہ آواز جس کی شدت 85 ڈیسیبل سے زیادہ ہو، شور کے زمرے میں آتی ہے اور یہ انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ابلاغ کو بھی محدود کر دیتی ہے۔
جہاں تک موجودہ دور میں عام انسانوں میں شور سے متعلق شعور کے حوالے سے آنے والی تبدیلیوں کا تعلق ہے، تو ایسے انسانی محسوسات کو کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں نے بھی کافی حد تک متاثر کیا ہے۔ عام لوگ شور کے حوالے سے زیادہ حساس ہو گئے ہیں اور ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ شور مسلسل اور بہت زیادہ ہو مگر انسانی دل و دماغ کے لیے بے چینی اور ناپسندیدگی کی وجہ نہ بنے۔
م م / ر ب (ڈی پی اے، اے پی)