’شِنگل‘، عراقی ایزدیوں کا گم شدہ وطن
3 اگست 2018تین اگست دو ہزار چودہ وہ دن تھا، جب شمالی عراق میں صدیوں سے ایزدیوں کا وطن کہلانے والے خطے پر اسلام کا نام لے کر خونریزی کرنے والے عسکریت پسندوں کی دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس خطے پر قبضے کی جنگ جہادیوں کے ہاتھوں وہ نسل کشی بھی تھی، جس کا واضح ہدف ایزدی تھے۔
لاشوں کے انبار
عراق کے شمال میں ایزدیوں کے وطن کا علاقائی محور سنجار نامی وہ شہر تھا، جہاں ٹھیک چار برس قبل داعش کے جہادیوں نے تباہی مچا دی تھی اور لاشوں کے انبار لگا دیے تھے۔ ماضی کے اس ہنستے بستے شہر میں آج اگر کچھ باقی بچا ہے، تو وہ تباہ شدہ عمارات اور ملبے کے وہ ڈھیر ہیں، جنہیں کوئی بھی نام دیا جائے لیکن ’شہر‘ نہیں کیا جا سکتا۔ ان حالات کی ذمے دار امریکی افواج بھی ہیں۔
سنجار پر داعش کا قبضہ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ دیر تک جاری رہا تھا اور پھر نومبر 2015ء میں کرد جنگجوؤں نے امریکی فضائیہ کی طرف سے کیے جانے والے وسیع تر حملوں کی مدد سے اس شہر کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسندوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا تھا۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ عراقی شہر سنجار، جو روایتی طور پر عراقی ایزدیوں کا دارالحکومت قرار دیا جاتا تھا، سب سے زیادہ امریکی جنگی طیاروں کی بمباری سے تباہ ہوا۔ پھر داعش کے قبضے سے اس شہر کی آزادی کے بعد وہاں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ترک فضائیہ کی طرف سے بھی بمباری کی گئی۔
یوں عراقی ایزدیوں میں تباہی اور ہلاکتوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد پایا جانے والا یہ احساس شدید تر ہو گیا کہ وہ اس خطے سے محروم ہو گئے ہیں، جنہیں وہ صدیوں سے اپنا وطن اور اپنی جنت قرار دیتے تھے۔ عراقی ایزدی اپنی زبان میں اپنے اس وطن کو ’شِنگل‘ کہتے ہیں۔
تعمیر نو کا کوئی نشان نہیں
آج کے ’شِنگل‘ میں اس شہر کی تعمیر نو کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے برعکس عراق کا دوسرا سب سے بڑا شہر موصل، جو صرف ایک سال پہلے داعش کے قبضے سے آزا دکرایا گیا تھا اور جو زنجار سے صرف 120 کلومیٹر مغرب کی طرف واقع ہے، وہاں تو تعمیر نو کا عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔
اس کے مقابلے میں ’شِنگل‘ کی داعش کے جہادیوں کے قبضے سے آزادی کو قریب تین سال ہونے کو ہیں اور اب تک وہاں اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوا کہ شہر کی سڑکوں سے تباہ شدہ عمارات کا ملبہ کچھ کچھ ہٹا دیا گیا ہے۔
’شِنگل‘ کے نواح میں بہت سے دیہات بھی پوری طرح تباہ ہو چکے ہیں، جہاں اب بہت کم لوگ رہتے ہیں۔ انہی دیہات میں سے ایک ’ہَیردان‘ بھی ہے، جہاں جانے والی سڑک کے کنارے ایزدی باشندوں کی کم از کم چار اجتماعی قبروں کے ارد گرد اب حفاظتی باڑیں لگائی جا چکی ہیں۔ داعش کے قبضے سے قبل ’ہَیردان‘ میں ایزدیوں کے قریب 300 خاندان آباد تھے۔ آج ایسے خاندانوں کی تعداد صرف 60 ہے۔
شمالی عراق کے اسی ایزدی گاؤں میں ابھی تک مقیم اور سب سے عمر رسیدہ رہائشیوں میں شمار ہونے والے ایک شخص کا نام حسن خلّاف ہے۔ حسن خلّاف کا کہنا ہے کہ چار سال قبل داعش کے ہاتھوں نسل کشی اور پھر داعش کے جہادیوں کے خلاف کردوں کے زمینی اور امریکی جنگی طیاروں کے حملوں کے بعد سے اس کے دو بیٹے، ایک بھائی اور چار بھتیجے لاپتہ ہیں۔ حسن خلّاف کہتے ہیں، ’’میں نہیں جانتا کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں یا وہ بھی ان چار اجتماعی قبروں میں سے کسی ایک میں دفن ہیں، جو اس علاقے میں موجود ہیں۔‘‘
عراقی کردستان اور مرکزی حکومت کے مابین رسہ کشی
’شِنگل‘ کے میئر کا نام فہد حامد عمر ہے، جنہیں اپنا موجودہ عہدہ سنبھالے ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔ وہ خود بھی ماضی میں اسی شہر میں داعش کے جہادیوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ میئر فہد حامد عمر کہتے ہیں کہ ’شِنگل‘ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ شمالی عراق کے کرد علاقے میں واقع ہے اور اگر یہ شہر براہ راست بغداد میں مرکزی حکومت کے انتظام میں ہوتا، تو داعش کے جہادیوں کے وہاں سے نکالے جانے کے قریب تین سال بعد بھی وہاں کی صورت حال وہ نہ ہوتی، جو آج ہے۔
’شِنگل‘ (عربی میں ’شنغال‘) کی تاریخ میں تین اگست 2014ء وہ سیاہ دن تھا جب اس شہر کی طرف بڑھتے ہوئے داعش کے جہادیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ، ان کے نزدیک، ایزدی ’کافر‘ تھے، جو ’شیطان کی پوجا‘ کرتے تھے اور اس ’مذہبی اقلیت کو ختم کر دیا جانا چاہیے تھا‘۔ اس شہر پر داعش کے حملے کے بعد کم از کم 15 ہزار ایزدی یا تو قتل کر دیے گئے یا ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ قریب سات ہزار ایزدی خواتین اور بچوں کو داعش کے جہادیوں نے ’غلام‘ بھی بنا لیا تھا۔
عراقی ایزدیوں کی آبادی، ماضی اور حال
اگست 2014ء سے قبل عراق میں ایزدیوں کی مجموعی آبادی قریب نصف ملین یا پانچ لاکھ تھی۔ ان میں سے ’شِنگل‘ کے علاقے میں قریب ایک چوتھائی ملین انسان رہتے تھے۔ ان میں سے بھی قریب 80 ہزار ’شِنگل‘ نام کے اس شہر میں رہتے تھے، جو اس علاقے کا صدر مقام ہے۔ان باشندوں میں اکثریت ایزدیوں کی تھی۔
آج ان ایزدیوں کی اکثریت مستقل طور پر ’شِنگل‘ سے رخصت ہو چکی ہے۔ یہاں سے نکالے گئے یا نقل مکانی پر مجبور ہو جانے والے ایزدی زیادہ تر شمالی عراق کے بڑے مہاجر کیمپوں، شام کے کرد علاقوں یا پھر ترکی میں پناہ گزین ہیں۔ ان میں سے بہت سے جرمنی میں بھی پناہ لے چکے ہیں۔
جرمنی میں ایزدی
جرمنی میں 2015ء میں قریب 32 ہزار عراقی شہریوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔ ان میں سے قریب 16 ہزار عراقی ایزدی تھے۔ اس کے علاوہ 2016ء میں جن 97 ہزار سے زائد عراقی باشندوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں، ان میں بھی تقریباﹰ 38 ہزار ایزدی شامل تھے۔ 2017ء میں جن 23 ہزار 605 عراقیوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، ان میں ایزدیوں کی تعداد 11 ہزار سے زائد رہی تھی۔
عراقی ایزدیوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنا ’شِنگل‘ نامی وطن کھو چکے ہیں۔ وہاں ان کی جلد واپسی اس لیے ممکن نظر نہیں آتی کہ ایزدیوں کا یہ وطن بھی اتنی ہی وسیع تر تباہی اور بربادی کا شکار ہے، جتنا کہ باقی پورا عراق۔