1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شٹائن مائر جرمنی کے بارہویں صدر بن گئے

مقبول ملک
22 مارچ 2017

سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فرانک والٹر شٹائن مائر نے جرمنی کے بارہویں صدر کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ اکسٹھ سالہ شٹائن مائر نے جرمنی کے وفاقی صدر کے طور پر اپنے عہدے کا حلف پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اٹھایا۔

https://p.dw.com/p/2ZjEU
Berlin Vereidigung Steinmeier als Bundespräsident Vereidigung
جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ کے اسپیکر نوبرٹ لامیرٹ، دائیں، فرانک والٹر شٹائن مائر سے وفاقی جرمنی کے بارہویں صدر کے طور پر حلف لیتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

جرمن دارالحکومکت برلن سے بدھ بائیس مارچ کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق فرانک والٹر شٹائن مائر نے آج دوپہر اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے بطور صدر اپنا اولین خطاب بھی کیا۔ اس تقریب کے بعد ان کا آج سہ پہر برلن ہی میں واقع وفاقی جرمن صدر کی سرکاری رہائش گاہ ’بَیلے وُو پیلس‘ میں باقاعدہ فوجی اعزاز کے ساتھ استقبال کیا جا رہا ہے۔

جرمنی میں صدر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟

اشٹائن مائر کو نیا جرمن صدر منتخب کر لیا گیا

نئے جرمن وزیر خارجہ گابریئل: ’سفارتکاری کم، واضح موقف زیادہ‘

شٹائن مائر ایک سوشل ڈیموکریٹ ہیں، جن کا صدر بننے سے پہلے تعلق جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے تھا۔ وہ کئی برسوں تک جرمن وزیر خارجہ بھی رہے ہیں۔ یہ عہدہ انہوں نے اسی سال کے اوائل میں اس وقت چھوڑا تھا جب موجودہ وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل دونوں بڑی سیاسی جماعتوں چانسلر میرکل کی پارٹی سی ڈی یو بشمول اس کی ہم خیال قدامت پسند جماعت سی ایس یو اور ایس پی ڈی کے درمیان یہ اتفاق ہو گیا تھا کہ شٹائن مائر کو صدارتی الیکشن کے لیے امیدوار بنایا جائے گا۔

شٹائن مائر کے بطور وزیر خارجہ مستعفی ہو جانے کے بعد ان کا جانشین سابق وزیر اقتصادیات زیگمار گابریئل کا بنایا گیا تھا، جو ابھی تک وفاقی وزیر خارجہ کی ذمے داریاں انجام دے رہے ہیں اور آج بدھ کے روز اپنی حلف برداری کے بعد شٹائن مائر یوآخم گاؤک کے جانشین کے طور پر جرمنی کے نئے وفاقی صدر بھی بن گئے ہیں۔

Berlin Antrittsrede Bundespräsident Steinmeier
نئے وفاقی جرمن صدر شٹائن مائر نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے اپنا اولین خطاب کرتے ہوئے ترک صدر ایردوآن کو واضح الفاظ میں تنبیہ کیتصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

نئے جرمن صدر کی ترکی کو تنبیہ

برلن سے نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق فرانک والٹر شٹائن مائر نے اپنی حلف برداری کے بعد برلن میں وفاقی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے اپنا جو پہلا خطاب کیا، اس میں انہوں نے ترکی اور جرمنی کے مابین شدید نوعیت کی موجودہ سفارتی اور سیاسی کشیدگی کے تناظر میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو واضح الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ نے اپنے یورپی پارٹنر ملکوں کے ساتھ برسوں کی محنت سے آج تک جو ثمرات حاصل کیے تھے، صدر ایردوآن ان تمام کامیابیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔

’بات حد سے گزر چکی ہے، ایردوآن کا جرمنی آنا قبول نہیں‘

ایردوآن کا میرکل پر ’ذاتی حملہ‘، ترک جرمن تنازعہ شدید تر

ترک سیاستدانوں کا جلسوں سے خطاب: پابندی ممکن، جرمن دھمکی

شٹائن مائر نے، جن کا صدر کے طور پر جرمنی میں ریاستی کردار حسب روایت زیادہ تر علامتی نوعیت کا ہو گا، اپنے اولین صدارتی خطاب میں کہا، ’’آج ہم جس طرح ترکی کو دیکھ رہے ہیں، وہ تشویش سے عبارت ہے۔ اس لیے کہ ہر وہ کامیابی جس کے لیے برسوں اور عشروں تک محنت کی گئی تھی، ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔‘‘

Berlin Zeremonie Vereidigung Steinmeier Abschied Gauck
سابق وفاقی جرمن صدر یوآخم گاؤک، دائیں، اپنے جانشین شٹائن مائر کو مبارک باد دیتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/O. Andersen

وفاقی جرمنی کے بارہویں صدر کے طور پر شٹائن مائر نے ترک صدر کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا، ’’صدر ایردوآن، آپ ان سب کامیابیوں کو داؤ پر لگا رہے ہیں، جن کے لیے آپ نے اور دوسروں نے برسوں تک محنت کی تھی۔ موجودہ حالات میں دنیا اس بات کا خیرمقدم کرے گی کہ صورت حال میں بہتری کے لیے انقرہ کی طرف سے واضح اور قابل اعتماد اشارے دیے جائیں۔‘‘

ترک صدر کی طرف سے موجودہ جرمنی اور جرمن رہنماؤں کے نازی دور اور طور طریقوں کے ساتھ بہت متنازعہ موازنے کے حوالے سے شٹائن مائر نے کہا، ’’نازیوں کے ساتھ ناقابل قبول موازنہ بند کر دیجیے۔ ان لوگوں اور قوتوں کے ساتھ اپنے رابطے ختم نہ کیجیے، جو ترکی کے ساتھ پارٹنر شپ چاہتے ہیں۔ اپنے ملک میں قانون کی حکمرانی کا احترام کیجیے اور میڈیا اور صحافیوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیجیے۔ اور ڈینیز یُوچَیل کو رہا کیجیے۔‘‘

ڈینیز یُوچَیل ایک ایسے ترک نژاد جرمن صحافی ہیں، جو ترکی میں ایک معروف جرمن جریدے کے نامہ نگار ہیں۔ ترکی نے انہیں ان الزامات کے تحت حراست میں لے رکھا ہے کہ وہ مبینہ طور پر ’دہشت گردی کے حق میں پراپیگنڈا‘ کرتے تھے۔