شہر خموشاں سے فقیرو کی صدا
27 جولائی 2020کچھ روز قبل ایسی ہی کیفیت مجھ پر طاری ہوئی۔ شدید گرمی یوں تو مجھ پر خاصی گراں گزرتی ہے لیکن مجھے آموں سے عشق ہے۔ آپ عشق میں مبتلا ہوں اور وہ آپ سے کڑا امتحان نہ لے تو مان لیجیے کہ آپ کے عشق میں کہیں کمی رہ گئی ہے۔ اس دفعہ سندھڑی آم کے عشق نے مجھے ٹنڈو الہیار کا سفر کرنے پر مجبور کر دیا۔ شدید گرمی میں کراچی سے سفر کا آغاز کیا، ابھی تک ایسا کچھ نہ تھا جس پر لکھا جا سکے۔
لیکن حیدر آباد سے میر پور خاص کی طرف جو راستہ جاتا ہے، انتہا ئی دلفریب ہے۔ مانا کہ شدید گرمی تھی لیکن آموں کے سرسبز باغات کے نظاروں کی لطافت ہر چیز پر حاوی ہو رہی تھی۔ سڑک کے دونوں جانب آم کے باغات تھے۔ یہ خوب صورت ہریالی ہم کراچی کے باسیوں کے دل لبھانے کو بہت بہترین سامان مہیا کرتی ہیں۔
نیلے آسمان سے نکلتی ہوئی سورج کی تیز کرنیں زمین تک پہنچ کر چلچلاتی دھوپ میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ دھوپ کی تمازت میں سڑک کے سرسبز کنارے، جو دونوں طرف سے سڑک کو دور تک گھیرے ہوئے تھے۔ درختوں سے چھنتی ہوئی دھوپ بھی اپنے اندر جو دلکشی رکھتی ہے، اس کو میرے لیے الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ درخت نہیں بلکہ گھاس کے سبز قالینوں پر دیو قامت چلمنیں رکھی ہوں، جو مختلف زاویوں سے روشنی کو چھان رہی تھیں۔
ابھی اس نظارے کو مکمل طور پر آنکھوں میں جذب کرنے میں مصروف تھی کہ یکایک بھائی کی آواز نے سکونت توڑا۔ 'سنا ہے کہ اس راستے میں ایک ایسا عظیم فنکار رہتا ہے، جس کے کام کو دنیا سراہتی ہے لیکن پاکستان میں اس کو زیادہ لوگ نہیں جانتے۔‘ اندرون ِ سندھ میں فنونِ لطیفہ کے اعتبار سے میں زیادہ لوگوں سے واقف نہیں، اس لیے ذہن میں بیک وقت کئی سوال اٹھے۔ کون ہو گا؟ مشہور بھی ہے لیکن یہاں کوئی جانتا بھی نہیں۔ کتنی عجیب بات ہے؟ کسی نے بھائی صاحب کے ساتھ مذاق کیا ہو گا۔ یہ کون سا پاکستان میں رہتے ہیں ان کو کیا پتہ ہو گا؟
میں نے بھائی صاحب کو غور سے دیکھا ناک سکیڑی اور پوچھا 'آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟ کیسا فنکار ہے؟‘ کہنے لگے 'میری ہوائی اڈے پر ایک آسٹریائی باشندے سے ملاقات ہوئی تھی وہ تحقیق کے سلسلے میں ٹنڈو الہیار کے کسی مجسمہ ساز سے ملنے جا رہا تھا۔ کہہ رہا تھا دنیا دیوانی ہے اس کے کام کی۔ اچھا چلو اگر ادھر کہیں قریب میں ہے تو دیکھتے ہیں مل کر آتے ہیں‘ ۔
گاڑی اب ہائی وے سے اندرونِ شہر کی جانب مڑ گئی تھی۔ سڑک کی دونوں اطراف باغات کا سلسلہ یوں ہی جاری تھا۔ لیکن اب آموں کے ساتھ ساتھ اس مجسمہ ساز کو دیکھنے کی ہوک بھی اٹھ رہی تھی۔ بھائی صاحب گاڑی روک کر آم کی پیٹیوں کا سودا کرنے لگ گئے اور میں سوچ رہی تھی کہ ایک خواہش تو ہو گئی پوری، اب دوسری خواہش کیسے پوری ہو گی؟ اسی تذبذب کے عالم میں بے اختیار آم والے سے ہی پوچھ بیٹھی کہ یہاں کوئی مجسمہ ساز رہتا ہے؟ اس نے قدرے بے رخی سے کہا 'فقیرے کے پاس جانا ہو گا۔ یہیں بھینسوں کے باڑے کے پیچھے رہتا ہے۔‘
چھوٹے شہروں میں رہنے کے کچھ فائدے بھی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کے پہنچنے کی خبر آپ سے پہلے ملنے والے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ یہ ایک چھوٹی سی آبادی تھی۔ جوں جوں منزل قریب آتی جا رہی تھی بہت سارے لوگ گھروں سے نکل آئے تھے۔ کچھ ہی ساعتوں بعد ہم فقیرے کے اسٹوڈیو کے باہر کھڑے تھے اور یہ ہمارے استقبال کو پہلے سے وہاں موجود تھے۔
چہرے بشرے سے بالکل ایک عام آدمی، ظاہری صورت دیکھ کر میں ہرگز یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ یہ کوئی غیر معمولی خوبی کے حامل ہیں۔ یہ صاحب بہت ہی انکساری کے ساتھ بھائی سے ملے اور سندھیوں کے مخصوص انداز میں ہاتھ جوڑ کر میرا بھی استقبال کیا۔ 'السلام و علیکم ادی (بہن)‘ یہ کہہ کر انہوں نے ہمیں اندر بلا لیا۔ سفر کی حالت، شدید گرمی اور حبس، پسینہ بہت بہہ چکا تھا۔ اب مجھے کوفت ہو رہی تھی۔
میں دل میں سوچ رہی تھی اگر بھائی صاحب کی اطلاع غلط ہوئی تو کیا ہو گا؟ بہت شدید گرمی تھی اور سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ پسینے کے قطرے میری آنکھوں میں سرایت کر رہے تھے اور جلن سے برا حال ہو رہا تھا۔ یہاں تک آنے کی خوشی تو بہت تھی لیکن بظاہر جگہ دیکھ کر لگ نہیں رہا تھا کہ مجھے اتنا خوش ہونا چاہیے تھا کیونکہ کچھ خاص دکھ نہیں رہا تھا۔ خیر، ہم بھیڑ میں سے راستہ بناتے ہوئے اندر چلے گئے۔
اب میں کیسے بیان کروں کہ اندر کی دنیا اور باہر کی دنیا میں کتنا فرق تھا۔ لکھتے وقت شاید حواس اور الفاظ دونوں میرا ساتھ نہ دیں۔ کہتے ہیں جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟ کہہ تو دیتے ہیں لیکن کبھی ایسے سوچتے ہیں کہ یہ بھی تو ممکنات میں سے ہے کہ جنگل میں ناچتا مور یہ چاہتا ہی نا ہو کہ اس کوکوئی دیکھے۔ مور تو اپنے اوپر انسانوں کی طرح کلنک کا داغ بھی نہیں لگا سکتا کہ اس کو کسی کی نظر نہ لگے۔ شاید اس کو سراہے جانے کا کوئی شوق بھی نہیں ہوتا اور حقیقت بھی یہی ہے۔ مور ناچتا ہے تو اپنی لطافت کے لئے اپنی خوشی کے لیے ناچتا ہے۔ اس کو اس بات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہوتی کہ کون داد دے رہا ہے اور کون نہیں۔
اس کہاوت کا یہ مفہوم آج فقیرے کی دنیا میں قدم رکھ کر سمجھ آیا۔ اس اندر کی دنیا کا باہر کی دنیا سے تعلق جوڑنا ذرا مشکل تھا۔ میرے لیے شاید ناممکن تھا۔ اس گوشے میں ایک طوفان بپا تھا۔ اتنا شور تھا کہ کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اگر آپ کان لگا کر سننے کی کوشش کرتے تو شاید کامیاب نہ ہوتے۔ اس شور کو میں نے آنکھوں سے دیکھا۔ یہ مجسمے تھے یا جیتے جاگتے لوگ؟ یہ مجھ سے کیا کہہ رہے تھے؟ بہت دیر اس حیرت کدے میں گم سم کھڑے ہو کر خاموشی کا شور سنا۔ حواس بحال ہوئے تو فقیر صاحب نے ہم سے بیٹھنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی ٹھنڈا پانی پیش کیا۔ میری زبان کو تو جیسے تالے لگ گئے تھے۔ تھوڑے توقف کے بعد بھائی نے ان پوچھا کہ انہوں نے کہاں سے اس کام کی تعلیم حاصل کی ہے اور ساری دنیا چھوڑ کر کیوں اس کونے میں بیٹھے ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ ان کا نام فقیرو میگھواڑ ہے۔ ان کا تعلق ضلع ٹنڈو الہیار سے ہی ہے۔ اسی لئے یہیں رہائش پذیر ہیں۔ فقیرو کے والدایک راج مستری تھے۔ اس طرح مٹی، سیمنٹ اور دیگر مجسمہ سازی کے مواد کے ساتھ ان کا تعلق بچپن میں ہی جڑ گیا۔ ان کے پاس آرٹ کی کوئی سند یا ڈگری نہیں ہے۔ انٹر تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد حصولِ روزگار کی تلاش نے ان کو مزید تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہ دی اور جلد ہی اپنے والد کے کام کو سنبھال لیا۔
فنکار کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، نہ وہ فن کو مرنے دیتے ہیں نہ فن ان کو۔ مٹی سے مجسمہ ساز کا گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ فقیرو بچپن سے ہی مٹی سے قریب رہے، انگلیون کے پور وں سے مٹی میں تصویریں بنایا کرتے تھے۔ مٹی میں سیمنٹ و دیگر مواد کو ملا کر تجرباتی طور پر مجسمہ سازی بھی کرتے تھے۔ کہتے ہیں اس کام میں ان کا کوئی ایک استاد نہ تھا۔ جب مٹی کو مورت میں ڈھالنا شروع کیا تو مکیلی اینجیلو کی مجسمہ سازی پر مبنی ایک کتاب حیدرآباد کے کسی ٹھیلے پر ملی۔ بس اسی دن سے مکیلی اینجلو کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ کہتے ہیں مجسمہ سازی کے بہت سے امور ہیں جن کو سمجھنے کے لیے مجسمہ ساز کو بہت باریک بینی سے کام لینا پڑتا ہے، بہت کشٹ اٹھانے پڑتے ہیں۔
انسان کے جسمانی خول پر اس کے حالات بہت گہرا اثر رکھتے ہیں۔ اس کو مجسمے میں ڈھالتے وقت دراصل اس کے حالات کو اس کے جسم میں اتارتا ہوں۔ اگر ایسا نہ کر سکوں تو میں اپنے آپ کو مجسمہ ساز کہنے کا روادار نہیں۔ اس کام پر مہارت حاصل کرنے کے لیے میں بہت مراحل سے گزرا ہوں۔ بالوں کی تراش خراش کو سمجھنے کے لیے نائی کے ساتھ کام کیا۔ لباس سے شناسائی کے لیے درزی کا کام بھی سیکھا۔ جوتے بنانے کے لیے موچی بھی بننا پڑا۔ یہ تو بس سطحی باتیں ہیں جو میں لکھ پا رہی ہوں۔ ان کا فن گواہی دے رہا تھا کہ واقعی فقیرا نے انسانی ذات کا گہرا تعقب کیا ہے۔ مجسمے خود اس بات کی گواہی دے رہے تھے۔ ایک مزدور کے چہرے کی تھکاوٹ، ایک کینسر سے مرتے مریض کی آخری سانسیں، ماں کی ممتا بھری مسکراہٹ، ہتھیلی پر دانہ چگتی چڑیا کا انسان پر بھروسہ اور نہ جانے کیا کیا ان کے مجسموں سے چند ساعتوں میں میرے اندر اتر چکا تھا۔
اس ماورائی دنیا میں وقت تھم گیا تھا۔ ان کا کام دیکھنے اور سمجھنے کے لئے یہ چند گھڑیا ں بالکل ناکافی معلوم ہو رہی تھیں۔ گھر والے ہماری راہ تک رہے ہوں گے۔ ان کو تو اندازہ بھی نہ ہو گا کہ ہم کس نہج کو چھو کر واپس آئیں گے۔ بھائی صاحب نے فقیرا صاحب سے اجازت چاہی۔ لیکن سندھ آئیں اور سندھیوں کی مہمان نوازی نہ ملے تو سمجھیے آپ نے سندھ نہیں دیکھا۔ انہوں نے بھی ہمیں بغیر چائے پلائے نہیں چھوڑا۔ آخرکار ہم نے اجازت چاہی اور واپسی کا رختِ سفر باندھا۔ ہم بہن بھائی شاید کبھی اس سفر کو بھلا نہ سکیں گے۔
فقیرا صاحب سے اب بھی بذریعہ واٹس ایپ علیک سلیک کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ اپنے بنائے ہوئے فن پاروں کی تصاویر ہمیں بھیجتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے بے حد مسرت سے ہمیں بتایا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے ان کی فنی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کو 2019ء کے پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز برائے مجسمہ سازی سے نوازا ہے۔ اس کی تقریب عالمی وبا کی وجہ سے التوا کا شکار ہے۔ میں اپنی تحریر کے ذریعے فقیرا صاحب کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔