شیعہ مسلمانوں کے خلاف مواد بیچنے پر دس سال قید کی سزا
18 فروری 201626 سالہ سیف اللہ سیفی کو گزشتہ برس مئی میں جہلم سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس مقدمےکے جج رائے ایوب مرتھ نے بدھ کے روز کیس کا فیصلہ سنایا، جس کے مطابق سیف اللہ سیفی کو جان بوجھ کر نفرت آمیز مواد بیچنےکا مرتکب قرار دیا گیا۔ سیفی ایک ریڑھی فروش ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے منشی نوید احمد نے جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ’’ سیف اللہ سیفی کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اور اس پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔‘‘
ایک پولیس اہلکار کے مطابق ان سی ڈیز میں مولانا ملازم حسین ڈوگر کی تقاریر تھیں، جو شیعہ برادری کے خلاف نفرت انگیز مواد پر مبنی ہیں۔ مولانا ملازم حسین ڈوگر کا تعلق ایک کالعدم فرقہ وارانہ گروہ اہلسنت و الجماعت سے ہے۔ پولیس کو اس مفرور مذہبی رہنما کی دوسرے جرائم میں بھی تلاش ہے۔
پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق مولانا ملازم حسین ڈوگر کے نام سے ایک فیس بک اکاؤنٹ بھی ہے جس کو 3000 سے زائد افراد فولو کر رہے ہیں۔ یہ وہ واحد واقعہ نہیں ہے جس میں نفرت انگیزی پھیلانے والے کی بجائے ایسے شخص کو تحویل میں لیا گیا ہو، جس کے پاس یہ مواد موجود تھا یا وہ اسے فروخت کر رہا تھا۔ اکتوبر 2014 میں اسلام آباد میں پولیس نے 16 شدت پسند مذہبی رہنماؤں کے خلاف کیس درج کیے تھے لیکن انہیں گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ ان افراد نے سیشن عدالت سے قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کر لی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستانی انتظامیہ نے ملک بھر میں نفرت آمیز مواد کی تبلیغ کرنے والے افراد کے خلاف کریک ڈاؤں کا آغاز پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد کیا تھا۔ اس حملے میں 132 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوئے تھے۔