1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صاحب جی کا مشورہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنے اخراجات کم کریں!

11 فروری 2021

جناب وزیر اطلاعات شبلی فراز صاحب! آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اب مزید خرچہ کیسے کم کیا جائے؟ کیا بچوں کو اسکولوں سے نکال لیا جائے، گھر کی بجلی کٹوا دی جائے یا پھر بچوں کا کھانا صرف ایک وقت کر دیا جائے؟

https://p.dw.com/p/3pCi1
Pakistan HIV-Test
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

رات دن جان ہتھیلی پر رکھے ہسپتالوں کے چکر لگاتی ہوئی ایک لیڈی ہیلتھ ورکر، جس کو یہ بھی ہوش نہ ہو کہ اس کے اپنے بچوں نے کھانا کھایا ہو گا کہ نہیں؟ کورونا وارڈز میں ڈیوٹیاں دیتے ہوئے ایک لمحے کو اپنی زندگی کے بارے میں بھی نہ سوچنے والے  ہیلتھ ورکرز اگر اپنا حق مانگیں، اپنی کم آمدنی کے خلاف حکومت وقت کے سامنے سراپا احتجاج ہوں تو کیا یہ انصاف ہو گا کہ امیر شہر ان کے گلے شکوے سننے کہ بجائے، ان کا درد سننے کہ بجائے، کندھوں کو اچکا کر یہ مشورہ دے کہ ''اپنے خرچے کم کریں۔‘‘

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے وہ عورت، جو گھر سے باہر نکل کے جان جوکھوں میں ڈال کر پندرہ ہزار اور زیادہ سے زیادہ پچیس ہزار تنخواہ گھر لے کر جاتی ہو، یا وہ آدمی، جو پورے گھر کا واحد کفیل ہو، اس آمدنی میں اپنے خرچے کیسے کم کرے گا؟

تو شبلی فراز صاحب!  آپ کے خیال میں گھر کی بجلی کٹوا دیں؟ کیونکہ لے دے کے بجلی ان گھروں میں آتی بھی ہے تو اس کا بل بھی ہزاروں میں ہوتا ہے۔ پینے کا صاف پانی ویسے تو حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن نلکوں میں جراثیم سے بھرے پانی کی وجہ سے اب صاف پانی بھی انہیں خریدنا پڑتا ہے۔ آپ کے خیال میں ایک گھر کا خرچہ کتنا ہوتا ہے؟ چلیں اگر اس کا خرچہ کم بھی کر لیں تو پندرہ سو سے دو ہزار تو تب بھی پینے کا پانی خریدنے کے لیے چاہیے ہوتے ہیں۔ پینے کا پانی تو ایک طرف  اب تو مشکل یہ ہے کہ کبھی کبھی پانی آتا ہی نہیں تو مجبورا اس غریب عوام کو یہ بھی خریدنا پڑتا ہے۔

جناب شبلی فراز صاحب! اب مزید خرچہ کیسے کم کریں؟ آپ کو معلوم ہے کہ یہاں پانی کا خرچہ بڑھنے کی وجہ سے بہت سے گھرانوں نے اپنی بیٹیوں کو اسکولوں سے نکال لیا ہے۔ اسکولوں سے یاد آیا، مفت اور معیاری تعلیم دینا بھی تو حکومت کا ہی فرض ہے، لیکن یہاں کتنے ہی سرکاری اسکول ہیں جہاں تعلیم تو کیا اسکول میں بنیادی سہولیات بھی نہیں۔ تو کیا والدین ان اسکولوں سے بھی اپنے بچوں کو نکال کر خرچہ کم کریں؟

DW Urdu Blogerin Sana Batool
سیدہ ثناء بتولتصویر: Privat

اب جہاں تک بات آتی ہے کھانے پینے کی، تو اس کمرشلائزیشن کے دور میں ٹی وی پر اشتہاروں میں  بڑے بڑے دسترخوان دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟ یعنی کم آمدنی والے افراد اور ان کی اولادیں آپ کے رائج کردہ مفاد پرست  معاشرے میں احساس کمتری کا شکار رہیں؟

چلیں اگر غریب کا بچہ ایک وقت روٹی کھا بھی لے اور تعلیم سے محروم ہو بھی جائے، گندہ پانی ہی پی کر زندہ رہنے کی کوشش کرے تو آپ بتائیں، جب ہسپتال جانا ہو گا تو اس وقت وہ ہسپتال کا خرچہ کیسے کم کرے؟ روز بروز مہنگی ہوتی ادویات کا خرچ کیسے کم ہو؟ کسی کے گھر کوئی بیمار ہے تو اس کا علاج کیسے کروایا جائے؟ 

ابھی میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ خاندانوں میں مرنا جینا بھی تو ہوتا ہو گا۔ یعنی کسی کی شادی آ گئی تو کہیں فوتگی ہو گئی۔

اب کم سے کم بھی لفافے میں پانچ سو کا نوٹ تو رکھنا ہی ہوتا ہے اور اگر کہیں فوتگی ہو گئی تو کراچی جیسے شہر میں ایک علاقے سے دوسرے علاقے کا کرایہ بھی پانچ سو ہو جاتا ہے۔ اللہ بھلا کرے کورونا کا کہ غریب کا کچھ تو پردہ رکھ لیا۔ شادی میں نہ جانے کا بہانہ اور فون پر ہی تعزیت کرنے سے چلیں آپ کے کہے بغیر ہی یہ خرچہ خود ہی کم ہو گیا۔

آپ نے مشورہ تو دے دیا کہ خرچوں کو کم کریں لیکن یہ نہیں بتایا کے کیسے؟ ہاں البتہ آپ کی حکومت اور پولیس نے بہت اچھا طریقہ اپنایا ہے۔ سڑکوں پر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی عوام کو خاموش کرنے کے لیے آنسو گیس کا طریقہ ہمیشہ کارآمد ثابت ہوتا ہے۔

اب یہ غریب ہی تو ہیں، ان کے ساتھ کیڑے مکوڑوں جیسا رویہ رکھنے میں آپ کے خیال میں کوئی حرج نہیں۔ کچھ شاید اس احتجاج کو بیرونی سازش بھی قرار دینے کی کوشش کریں یا شاید اب تک دے ہی چکے ہوں۔

جانب وزیر اطلاعات، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں بتائیں کے آپ اپنے خرچے کس طرح کم کرتے ہیں؟ شاید آپ کا ایک بیرون ملک سفر ان ہیلتھ ورکرز کی سالانہ آمدنی جتنا ہو۔ آپ جو لاکھوں میں تنخواہ لیتے ہیں اور آپ کے گھر کی بجلی کا بل  تو شاید ان کی ماہانہ آمدنی جتنا ہو۔ آپ اسے کیسے کم کرتے ہیں؟  ایک وزیر، جو روزانہ ہزاروں روپے گاڑی کے تیل کی مد میں وصول کرتا ہے، وہ اپنے خرچے کیسے کم کر رہا ہے؟ یہ بات عوام ضرور جاننا چاہے گی۔