صحافی کا قتل، افغان خواتین مدد کی خواہاں
17 مئی 2019افغانستان کی معروف صحافی اور سیاسی مشیر مینا منگل کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔ اس سے افغانستان میں خواتین کی سلامتی کے حوالے سے صورت حال ایک بار پھر واضح ہو گئی۔ مینا منگل متعدد ٹی وی چینلز کے لیے کام کرتی رہیں، تاہم بعد میں انہوں نے پارلیمان کی مشیر برائے ثقافت کے بہ طور اپنی ذمہ داریاں انجام دینا شروع کر دیں۔ انہیں ہفتے کے روز نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، جب وہ کابل میں اپنے گھر سے دفتر کے لیے نکل رہی تھیں۔
افغانستان میں سابقہ خاتون صحافی کا قتل
پولیس نے اس واقعے کے بعد منگل کے سابقہ شوہر کی تلاش کے لیے چھاپے مارنا شروع کر دیے ہیں، کیوں کہ منگل کے والدین نے الزام عائد کیا تھا کہ ممکنہ طور پر وہی اس قتل میں ملوث ہو سکتا ہے۔ شکیب منگل نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ان کی بہن کو ان کے سابقہ شوہر کے گھروالوں نےایک بار قید بھی کیا تھا۔ ’’میری بہن کے سسرال والوں نے انہیں دو برس قبل اغوا کیا تھا مگر ہم نے چند حکومتی عہدیداروں اور قبائلی عمائدین کی مدد سے انہیں رہا کروا لیا تھا۔ تاہم سابقہ شوہر مینا منگل کو مسلسل دھمکیاں دیتا رہتا تھا۔‘‘
شکیب منگل نے بتایا کہ ان کے اہل خانہ نے اس قتل کے حوالے سے شکایت مینا منگل کے سابقہ شوہر اور اس کے والدین کے خلاف درج کروائی ہے۔ کابل پولیس کا کہنا ہے کہ خاندانی جھگڑا اس قتل کا محرک ہو سکتا ہے، تاہم منگل کے بھائی کا اصرار ہے کہ تمام جھگڑوں کی بنیاد مینیا منگل کا کام کرنا اور نوجوان لڑکیوں کے حقوق کی لڑائی لڑنا تھا۔‘‘
مینا منگل کی ہلاکت سے افغانستان میں ملازمت پیشہ خواتین کو لاحق خطرات کی عکاسی ہوتی ہے۔ افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں زیادہ تر مرد یہ سمجتے ہیں کہ خواتین کو گھروں میں رہنا چاہیے۔ سن 2018ء میں تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن نے افغانستان کو خواتین کی سلامتی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا سب سے بدترین ملک قرار دیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سن 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے برسوں گزر جانے کے باوجود افغانستان میں خواتین کے بااختیار اور تعلیم یافتہ بنائے جانے کے حوالے سے نہایت کم پیش رفت ہوئی ہے۔
مسعود سیف اللہ، ع ت، ک م