صحرائے نمیب میں زندگی اور موت کی جنگ
شدید ترین گرمی، ٹھنڈیں راتیں، پانی اور خوراک کی کمی۔ صحرائے نمیب رہنے کے لیے ایک مشکل ترین جگہ ہے۔ جانیے ان مشکل حالات کے باوجود وہاں جانور کس طرح زندہ رہنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
جو کچھ بھی ملے کھا لو
اس گرم ترین صحرائی موسم کا شتر مرغوں پر اثر نہیں ہوتا۔ نہ اڑنے والے یہ پرندے اپنی جسم میں درجہ حرارت ایسے کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ پسینے کی صورت میں پانی ضائع نہ ہو۔ ان کے معدے ایسی چیزیں بھی ہضم کر لیتے ہیں، جنہیں باقی جانور نہیں کر سکتے۔
گرمی میں ٹھنڈک
غزال افریقہ (جیمز بک) کی ناک میں خون کی ایسی باریک نالیوں کا ایک نیٹ ورک ہوتا ہے، جو گرم ہوا کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اس کا دماغ ٹھنڈا رہتا ہے۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ سفید رنگ کا ہوتا ہے، جس وجہ سے یہ قدرتی طور پر زمینی تپش سے محفوظ رہتا ہے۔
رنگ ہی بدل لو
اگر گرمی بہت زیادہ بھی ہے تو یہ ناماکوا گرگٹ کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ سورج کی روشنی تیز ہونے کی صورت میں یہ اپنا رنگ انتہائی ہلکا کر لیتا ہے، جس سے روشنی منعکس ہو جاتی ہے۔ ریت کی شدید تپش سے بچنے کے لیے یہ وہاں موجود چھوٹے پتھروں پر چڑھ جاتے ہیں۔
اونچائی پر تپش کی کمی
ڈون نامی اس چیونٹی کی ٹانگیں عام چیونٹیوں سے زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔ تقریبا پانچ ملی میٹر ان اونچی ٹانگوں کا مقصد اسے ریت کی تپش سے بچانا ہے۔ یہ ٹانگیں اسے ریت کے پچاس فارن ہائیٹ سینٹی گریڈ درجہ حرارت سے دور رہنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
زیر زمین پناہ
صحرائے نمیب کی یہ چھپکلی دن کی روشنی سے بچنے کے لیے صرف رات کو باہر نکلتی ہے۔ دن کی روشنی میں یہ سرنگ بناتے ہوئے ریت کے نیچے چلی جاتی ہے۔ اس کے پاؤں ریت میں سرنگ کھودنے اور بھاگنے کے لیے بہترین ہیں۔
رات کی مسافر
وائٹ لیڈی کے نام سے مشہور یہ مکڑی بھی دن کی روشنی سے پرہیز کرتی ہے۔ یہ ریت کے نیچے جا کر اپنے گرد ریشمی جالا بنا لیتی ہے تاکہ تپش سے محفوظ رہا جا سکے۔ یہ اپنے شکار کے لیے صرف رات کو باہر نکلتی ہے اور اپنا سفید رنگ مزید تیز کر لیتی ہے۔
آسان زندگی گزارنے والا
اس بچھو کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ جس قدر ممکن ہو آہستہ کھانا کھاؤ اور آہستہ ہضم کرو۔ اس بچھو کو زیادہ توانائی کی ضرورت نہیں ہوتی اور کئی مہنیے بغیر شکار کے رہ سکتا ہے۔ اس بچھو میں خون اور آکسیجن کا نظام باقی بچھوؤں سے بالکل مختلف ہے اور یہ اسے گرمی سے بچاتا ہے۔
ریت میں زندگی
یہ کینچوا ریت میں ’’تیرنے‘‘ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی ساری زندگی ریت کے ٹیلوں میں خوراک تلاش کرتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ اس کی خوراک انتہائی چھوٹے کیڑے ہوتے ہیں۔ یہ کیڑوں کے پاؤں سے ریت پر پیدا ہونے والی ارتعاش سے ان کا پتا چلا لیتا ہے۔
پانی کی تلاش
اس خشک صحرا میں بھنورا ایک خاص طریقے سے پانی جمع کرتا ہے۔ صبح کی دھند میں یہ سر نیچے کر کے کھڑا ہو جاتا ہے۔ دھند اس کی پشت پر لگنے کے بعد پانی کے قطروں میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پانی کے قطرے اس کے منہ کی طرف چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ اپنے جسم کا چالیس فیصد تک حصہ پانی سے بھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔