صحرا پھیل رہے ہیں، زمین پھر سے سبز کیسے ہو؟
20 فروری 2022منگولیا اور چین کے شمال مغربے علاقے کا صحرائے گوبی دنیا کا سب سے تیز رفتاری سے پھیلنے والا صحرا ہے۔ اس کا موجودہ رقبہ بارہ لاکھ مربع کلومیٹر ہے مگر ہر سال اس میں تقریباﹰ چھ ہزار مربع کلومیٹر کی وسعت دیکھی جا رہی ہے۔ جوں جوں یہ پھیل رہا ہے، توں توں یہ صحرا سرسبز علاقے اور زمینوں سے زخیزی چھینتے ہوئے ہستے بستے دیہات کھاتا جا رہا ہے۔ لاکھوں لوگ اسی تناظر میں اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور اس خطے میں بسنے والے افراد کی تعداد اب محض چند ہزار تک محدود ہو چکی ہے۔
صحرائے یہودا میں دو ہزار سال پرانی بائبل کی باقیات کی دریافت
سعودی عرب کے صحرا میں انسانی قدموں کے ایک لاکھ بیس ہزار سال پرانے نشانات کی دریافت
ڈیزرٹیفیکیشت یا صحرائیت وہ عمل ہے جس میں زرخیز زمین بنجر ریت میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔ گوکہ یہ عمل فطری ہے، مگر اس کے پھیلاؤ اوراس شدت کا ایک بنیادی کردار انسان بھی ہے۔
چار اہم وجوہات
عالمی سطح پر صحرائیت کے اس عمل کے درپردہ چار اہم محرکات ہیں۔ ایک صنعتی زراعت کے لیے پانی کا بہت زیادہ استعمال، زیادہ تواتر اور شدت کی خشک سالی، جنگلات کا کٹاؤ اور مویشیوں اور جانوروں کا چراگاہوں کو شدید استعمال ہے۔
ماضی کے زرخیز اور سرسبز علاقے اب بنجر اور ریتلے علاقوں میں تبدیل ہو رہے ہیں اور یوں اس وقت قریب ایک ارب انسانوں اور جانداروں کروڑوں دیگر اقسام کی زندگیاں شدید خطرات کا شکار ہیں۔ اندازوں کے مطابق رواں صدی کے وسط تک زمین کا ایک چوتھائی علاقہ صحرایت کا شکار ہو چکا ہو گا۔
حل کیا ہے؟
یہ خوف ناک صورت حال ہے، تاہم سائنسدانوں کے مطابق اچھی خبر یہ ہے کہ اس صورت حال کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بارشوں کے ذریعے صحرا میں زندگی پیدا کرنا اس سلسلے میں ایک غیرمعمولی عمل ہو سکتا ہے۔
سعودی شہر مکہ کے قریب البضا پروجیکٹ کے تحت ماہرین صحرائی زراعت کا نظام پیدا کر چکے ہیں۔ یوں بارشوں کی مدت سے صحرائی علاقوں کی زندگی کی جانب لوٹایا جا سکتا ہے۔
البیضا پروجیکٹ کے سابق ڈائریکٹر اور ماہر نیل سپیکمین کے مطابق، سعودی عرب میں عموماﹰ چھوٹے علاقے میں بہت زیادہ بارش ہوتی ہے اور نتیجہ شہریوں کے زیرآب آ جانے کی صورت میں نکلتا ہے، ''ہم نے سوچا کہ اگر یہ پانی زمین کے اندر پہنچایا جائے، تو یہ پانی کے ذخیرے کا ایک پائیدار اور طویل المدتی راستہ ہو گا۔ تیزی سے بارش ہو تو زمین پانی جذب نہیں کر سکتی اور یوں بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
دیہاتیوں کے ساتھ مل کر ماہرینِ زراعت نے ڈیم اور ٹیرسز کے ذریعے مغربی سعودی عرب میں چٹانی دیوار بنائی تھی۔ اب بارش ہوتی ہے، تو یہ پانی جمع کیا جاتا ہے اور اسے وہاں پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے یا جہاں یہ رفتہ رفتہ زمین کے اندر جذب ہو سکتا ہے۔ یہی طریقہ صدیوں پہلے جنوبی امریکا میں بھی استعمال ہوتا رہا۔
ماہرین کے مطابق زیرزمین پانی کی موجودگی کی وجہ سے تیس ماہ تک کی خشک سالی کے باوجود بغیر پانی ملے مقامی سعودی علاقوں میں پودے اور درخت زندہ رہے۔
قابل تجدید توانائی بارش کی وجہ
شمالی افریقہ میں صحرائیت کے عمل کی روک تھام کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کارگر رہا ہے۔ زمین کا سب سے بڑا صحرائے صحارہ بھی صحرائے گوبی کی طرح پھیل رہا ہے اور بعض جگہوں پر اس کا پھیلاؤ پچاس کلومیٹر سالانہ تک ہے۔ یہیں سولر پینلز اور ونڈ فارمز کے ذریعے یہ علاقہ صحرائی پھیلاؤ کو روکنے کی راہ بھی دے رہا ہے۔
صحرا میں سولر پینل نصب کیے جائیں، تو وہ ہوا کو گرم کرتے ہیں، یہ گرمی زمین سے کرہ ہوائی میں پہنچتی ہے اور یوں ٹھنڈی ہوا فضا سے زمین کی سطح کی طرف دائرہ بناتی ہے۔ زمین پر آتے ہوئے یہ ٹھنڈی ہوا آبی بخارات ساتھ لاتی ہے اور یوں یہ آبی بخارات بارش کی صورت میں مقامی علاقے پر برس جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر صحارہ خطے کے پانچویں حصے میں بھی سولر پینل اور وِنڈ ٹربائن لگائے جائیں تو یہ اس علاقے میں مجموعی طور پر پانچ سینٹی میٹر زیادہ بارش کا باعث بنیں گے۔
صحرائیت کا عمل روک کر صحرائی پھیلاؤ کی روک تھام کا ایک اور فطری طریقہ چین میں استعمال کیا گیا ہے اور اب تک یہ خاصا کامیاب رہا ہے۔ 1988 میں بیجنگ کے شمال مغربی حصے میں کوبوڈی صحرا تیزی سے پھیل رہا تھا، تاہم نمک کی کان کے راستے میں ٹرانسپورٹ کے تحفظ کے لیے وہاں درخت لگانے کا کام شروع کیا تھا۔ درخت لگانے کے عمل نے اس علاقے میں صحرا کا پھیلاؤ روک دیا۔ اسے دنیا کا سب سے کامیاب 'ری فارسٹیشن پروگرام‘ کہا جاتا ہے۔ اس طریقے درخت براہ راست لگانے کی بجائے پانی کے خصوصی جیٹس کے ذریعے زمین میں پودے لگائے گئے۔ اس طریقے میں فی پودہ شجر کاری کا وقت دس منٹ سے کم ہو کر دس سیکنڈ رہ گیا۔ اس طریقے میں پانی کی دھاروں کے ذریعے زمین میں سوراخ کیا جاتا ہے اور اس سوراخ میں پودا لگا دیا جاتا ہے۔
ع ت، ع ب (ٹم شاؤبرگ)