صدر زرداری پشاور میں: دہشت گردی کے خاتمے کا عزم
27 اپریل 2010صدرمملکت آصف علی زرداری نے پشاور کے دورے کے دوران کئی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کئے۔ اس دورے میں صدرنے گورنرہاؤس پشاورمیں قبائلی عمائدین سے خطاب بھی کیا جبکہ قبائلی علاقوں کیلئے ترقیاتی فنڈز13ارب سے بڑھاکر21 ارب روپےکردیا ہے۔
انہوں نے قبائلی علاقوں کے دوروں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سال میں کم ازکم دوقبائلی ایجنسیوں کا دورہ کرناچاہیے۔ قبائلی علاقوں کے بعض ارکان پارلیمنٹ اس تقریب سے باہر تھے قبائلی پارلیمنٹرینز کو یہی شکایت ہے کہ 18 ویں ترمیم میں قبائلی علاقوں میں اصلاحات کونظر انداز کیا گیا ہے تاہم صدرمملکت کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کے بارے میں اصلاحات بھی اتفاق رائے ہی سے کرینگے۔
آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ “جن لوگوں کو تیس سال سے اپنے ہاں پناہ دی انہی لوگوں نے ہمارے پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہے ہم ان لوگوں پر ترس کھایا ہے کہ ہمارے مذہب ایک ہیں انہیں اپنے ملک میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے اور انکی زندگی اجیرن بن چکی ہے لیکن انہوں نے ہم پر ہی وار کرنا شروع کیا اگرقبائلی عوام چاہے تویہ ان غیر ملکیوں کو نکال سکتے ہیں یہ لوگ ہمارے بچوں کو ورغلا رہے ہیں اورہمارے ہی ملک میں ہمارے بچوں کو مار رہے ہیں ایسے شرپسندوں کو ہم آخری دم تک نہیں چھوڑیں گے جو ہمارے بچوں کو گمراہ کررہے ہیں ہم قبائلی علاقوں میں اصلاحات لانے کا بھی وعدہ کرتے ہے لیکن یہ اصلاحات ہم اسی طرح متفقہ لانا چاہتے ہے، جس طرح ہم نے 18ویں ترمیم اور پختونوں کو شناخت دی “۔
آصف علی زرداری کے دورہ پشاور کے دوران جہاں بعض اہم قبائلی پارلیمنٹرینز کو باہر رکھا وہیں نجی میڈیا کو بھی کوریج کی اجازت نہیں تھی۔ بلکہ صدرمملکت کے اس دورے کے دوران کوریج کیلئے صرف سرکاری میڈیا کو گورنرہاؤس تک جانے کی اجازت دی گئی۔ اس دورے میں سوات میں دہشت گردی کے دوران تباہ ہونیوالے سکولوں میں اکیس سکولوں کے تعمیر کا نو کا بھی افتتاح کرنا تھا تاہم یہ افتتاحی تقریب بھی امن وامان کی صورتحال کے باعث سوات کی بجائے گورنرہاؤس پشاور میں ہی منعقد ہوئی۔
سوات میں دھشت گردوں نے چار سو سے زائد سکولوں کو بموں سے تباہ کر دیا تھا۔ اس کی وجہ سے آج بھی ہزاروں بچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ صدرارت کے ساتھ آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کےشریک چیئرپرسن بھی ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے خیبرپختونخوا کے پیپلزپارٹی کے عہدیداروں سے ملاقات بھی کی اور کارکنوں کے گلے شکوے دور کئے۔ پپیلزپارٹی کے وزراء اپنے محکموں میں اے این پی کی جانب سے مداخلت کا رونا روتے ہیں اورانہوں نے گذشتہ دنوں وزیراعظم کے دورہ پشاور کے دوران ان کے ساتھ مشترکہ اجلاس منعقد کرنے سے بھی انکار کیا تھا۔۔ صدرمملکت کا کہناتھا کہ پختونخوا میں پیپلز پارٹی ہی اکثریتی جماعت ہے تاہم پیپلزپارٹی کی مفاہمت کی سیاست کی بدولت ہم دیگر جماعتوں کوبھی ساتھ لیکر چلتے ہیں۔
دوسری جانب قبائلی علاقوں اورمالاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن بدستور جاری ہے۔ اس دوران سیکورٹی اہلکاروں نے مالاکنڈ کے لوئردیر سے تحریک نفاذ شریعت کے سربراہ مولوی صوفی محمد کے صاحبزادے مطیع اللہ اورتین اہم کمانڈروں سمیت کرم ایجنسی سے بیت اللہ محسود گروپ کے اہم کمانڈر سلیم اور دیگر 36افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ اورکزئی اور خیبرایجنسی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران 13افراد ہلاک کیے گئے ۔
رپورٹ: فریداللہ خان
ادارت: عدنان اسحاق