صوفی سخی سرور کے مزار پر خودکش حملہ: 50 ہلاک
3 اپریل 2011دوسری جانب دربار کو زائرین کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے پاکستانی صوبہ پنجاب کے جنوبی حصے میں واقع شہر ڈیرہ غازی خان کے قریب مشہور و معروف صوفی بزرگ سخی سرور کے مزار پر خود کش حملے کئے گئے تھے۔
قبل ازیں ایک امدادی کارکن ناطق حیات نے بتایا تھا کہ جاں بحق افراد کی تعداد 41 تک پہنچ گئی ہے اور اس سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ خود کش دھماکوں کے بعد افراتفری اور چیخ و پکار کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔ بم دھماکوں والی جگہ کے ارد گرد انسانی خون اور جسموں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق خود کش حملے وقفے سے ہوئے۔
پولیس کے مطابق دونوں خود کش حملے تھے۔ خودکش بمباروں نے بارودی بیلٹوں کو دربار کے مرکزی دروازے پر اڑایا۔ ان دھماکوں میں 100 سے زائد زائرین کے زخمی ہونے کو رپورٹ کیا گیا تھا۔ زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ جس وقت خودکش بمباروں نے اپنی کارروائی مکمل کی اس وقت ہزاروں افراد صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں سے سخی سرور کے مزار پر حاضری کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔
دھماکے کے فوری بعد امدادی ٹیمیں ڈیرہ غازی خان اور ملتان سے بھی وقوعے کے مقام پر پہنچیں تھیں۔ مقامی حکام اور امدادی ورکرز نے پہلے ہی ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
صوفی سخی سرورکے مزار پر سالانہ عرس کی تقریبات جاری تھیں۔ مشہور صوفی بزرگ سخی سرور کا مزار ڈیرہ غازی خان شہر سے تقریباً چالیس کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان احسان اللہ احسان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو ٹیلی فون کرکے اس دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
حال ہی میں الیکشن جیتنے والے اپوزیشن کے مقامی سیاستدان اویس لغاری کے مطابق خود کش بم دھماکے ناقص سکیورٹی انتظامات کے باعث ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق پولیس حکمران سیاستدانوں کی حفاظت پر مامور ہے اور اس باعث امن و سلامتی کی طرف اس کی توجہ کم ہے۔
پاکستان میں انتہاپسند مسلمان مزاروں پر حاضری کو مذہبی روح کے منافی خیال کرتے ہیں۔ لاہور کے داتا گنج بخش اور پاک پتن کے بابا فرید گنج شکر کے مزاروں پر بھی ایسے خود کش حملے کیے جا چکے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں تو کئی مزاروں کو مسمار بھی کرنے سے انتہاپسندوں نے گریز نہیں کیا۔
رپورٹ: عابد حسین⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: شادی خان سیف