صولت مرزا کی پھانسی میں تاخیر کی وجہ ’خرابی صحت‘
19 مارچ 2015آج جمعرات انیس مارچ کے روز قومی اسمبلی میں ایک بیان دیتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ صولت مرزا کی سزائے موت پر عملدرآمد 72 گھنٹوں کے لیے مؤخر کیا گیا ہے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت نے صولت مرزا کی خرابی صحت کی وجہ سے سزائے موت مؤخر کرنے کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس درخواست پر رات گئے فیصلہ ہوا اور پھر یہ پھانسی مؤخر کر دی گئی۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا، ’’صولت مرزا، جس کے خلاف شاہد حامد کے قتل کا ہی نہیں، کئی دیگر گھناؤنے جرائم کا بھی الزام تھا، اس کی صحت ایسی نہیں ہے کہ اسے پھانسی دے دی جائے۔‘‘ چوہدری نثار کے مطابق سزائے موت کے ایک اور قیدی شفقت حسین کی سزا بھی، جسے آج جمعرات کی صبح پھانسی دی جانا تھی، گزشتہ رات 72 گھنٹوں کے لیے مؤخر کر دی گئی۔
پاکستانی وزیر داخلہ نے کہا کہ گزشتہ روز برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کےخلاف کوئی باضابطہ درخواست نہیں کی گئی تھی البتہ سکیورٹی فورسز اور آرمی کے خلاف بیانات اور عمران فاروق قتل کیس سےمتعلق بات ضرور ہوئی۔
ان کا کہنا تھا، ’’عمران فاروق قتل کیس کی پیروی کرنا ہمارا فرض ہے۔ ان کے قاتلوں کو سزا ملنی چاہیے۔‘‘ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ کراچی کے معاملات پر بھی برطانوی ہائی کمشنر سے بات ہوئی ہے۔
دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صولت مرز ا کی پھانسی کے مؤخر کیے جانے کی وجہ قانونی سے زیادہ سیاسی معلوم ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن اور سپریم کورٹ کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے نزدیک صولت مرزا کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ اس نے کس کو اور کہاں یہ بیان دیا ہے؟ میرے خیال میں اب اس طرح کی چیزیں نہیں ہونی چاہییں۔ اب لوگ باشعور ہو گئے ہیں اور انہیں سب پتہ ہے۔ میری وکالت کے دوران کبھی اس طرح سے سزائے موت کے قیدی کو پھندے سے نہیں اتارا گیا۔‘‘
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اس معاملےکو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کو کب تک لٹکایا جاتا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اعظم تارڑ کا کہنا ہے کہ بیان جس بھی صورتحال میں لیا گیا ہو، بہرحال اس کی ایک قانونی حیثیت بھی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’قانون خود ہی نیچرل جسٹس کی راہیں متعین کرتا ہے۔ ایک انسان جس کو سزائے موت سنائی گئی ہو، اگر وہ پھانسی سے قبل ایک بیان دیتا ہے تو اس کو بالکل سچ ہی نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ لیکن اس بیان کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کیونکہ اس میں دیگر افراد پر بھی سنگین قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ میرے خیال میں اب اس بیان کے بعد اگر کوئی قانونی کارروائی شروع کی جاتی ہے تو پھر اس بیان دینے والے کا اس کارروائی کی تکمیل تک زندہ رہنا بھی ضروری ہے۔‘‘
دریں اثناء پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی ہے۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن ضرب عضب اور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی ان کے گھروں کو واپسی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ملاقات میں ملک میں سکیورٹی کی صورتحال خصوصاﹰ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات کے بعد سندھ میں انتظامی عہدوں پر تبدیلیوں پر بھی غور کیا گیا۔ واضح رہے کہ صولت مرزا نے اپنے بیان میں سندھ کے گورنر عشرت العباد پر بھی الزام لگایا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے مختلف الزامات میں گرفتار کارکنان کو سہولیات مہیا کرتے ہیں۔
اس سے قبل پاکستانی وزیر اعظم کے امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف اہم دستاویزات برطانوی ہائی کمشنر کے سپرد کر دی گئی ہیں۔ اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے برطانوی ہائی کمشنر فلپ بارٹن سے ملاقات میں الطاف حسین کےخلاف مقدمے کی تفصیلات اور اہم دستاویزات سمیت ضروری مواد برطانوی حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔